• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قرض کی رقم کیو جہ سے دکان کا کرایہ کم طے کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب ایک سوال درپیش ہے کہ میرا ایک خالی پلاٹ ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ لوگوں سے سرمایہ لے کر اس پلاٹ پر دکانیں بناؤں اور پھر وہ دکانیں جن سے سرمایہ اٹھایا ہے انہیں کرائے پر دے دوں، اس صورت میں، میں کرایا مارکیٹ ریٹ سے تھوڑا کم رکھوں گا ،پھر کرائے سے جب میرا قرض اتر جائے گا تو پھر ممکن ہے کہ کرائے داروں کو اسی کرائے پر بیٹھا رہنے دوں یا ہوسکتا ہے کہ کرایہ بڑھادوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کرایہ دار تبدیل کر دوں۔

مہربانی فرما کر رہنمائی کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کے لئے اس طرح سے دکانیں کرائے پر دینا جائز نہیں،کیونکہ قرض کی وجہ سے کرائے کو مارکیٹ ریٹ سے کم کرنا قرض پر نفع دینے کی صورت ہے جسے حدیث میں (ربا)سود کہا گیا ہے۔

فی فتح القدیر:7/250

کل قرض جرنفعا فهوربا

فی الدر:3/4

البیع هو لغة مقابلة شیئ بشیئ مالاوقال الشامی تحت قوله :وهو لغة مقابلة شیئ بشیئ و ظاهره شمول الاجارة لان المنفعة شیئ باعتبار الشرع انها موجودة حتی صح الاعتیاض عنها بالمال۔

فی الهندیة:3/14

ولو آجر دارا او عقارا قبل القبض من البائع او غیره لایجوز عند الکل کذا فی فتاوی قاضی خان۔

اگر آپ لوگوں سے سرمایہ لے کر دکانیں بنانا چاہتے ہیں تو اس میں آپ لوگوں سے قرضہ لے کر بنا لیں مگر قرض اور دکانوں کا حق کرایہ داری آپس میں منسلک ومشروط نہیں ہونا چاہیےاور نہ ہی کرایہ مارکیٹ ریٹ سے کم ہونا چاہیے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved