• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصے میں طلاق دینے کا حکم

استفتاء

شوہر کا بیان:

میں کام سے گھر واپس آیا میں بہت زیادہ تھکا ہوا تھا، مجھے بہت زیادہ بھوک لگی ہوئی تھی ، میں اپنی بیوی سے کہہ کر گیا تھا کہ کھانا تیار رکھنا لیکن کھانا تیار نہیں تھا، یہ سب دیکھ کر مجھے بہت زیادہ غصہ آیا اور میں آپے سے باہر ہو گیا اور گھر کا کافی زیادہ سامان توڑ دیا۔ اس کے بعد میں اپنی بیوی کو تھپڑ مارنے کے لیے اٹھا تو میری بیوی نے دروازہ بند کر دیا، میں نے اینٹیں مار مار کر دروازہ توڑنے کی کوشش کی، دروازہ خراب  ہو گیا لیکن  کھلا نہیں اور میں نے غصہ میں آکر تین بار ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘  بول دیا۔

بیوی کا بیان:

مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ آج جلدی آجائیں گے کھانا تیار نہیں ہوا تھا اس لیے ان کو بہت زیادہ غصہ آ گیا اور انہوں نے گھر کا کافی زیادہ سامان توڑ دیا،   پھر مجھے گالی دی ، بچوں کو مارا، انہوں اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچایا اور اپنا ہاتھ زخمی کیا، ان کی پاگل پن کی سی کیفیت تھی،  جیسے نشے کی حالت میں ہوں، مجھے مارنے لگے تو میں ڈر کر کمرے میں بند ہوگئی اور انہوں نے باہر کھڑے ہو کر تین بار ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘  بول دیا اور میں نے سن لیا۔

بیٹی کا بیان:

میرے ابو کام سے آئے تھے، انہیں  بہت تیز بھوک لگ رہی تھی، جب وہ گھر  آئے  تو کھانا نہیں بنا ہوا  تھا، یہ سب دیکھ کر انہیں بہت غصہ آیا جس کے باعث انہوں نے گھر کا کافی سامان توڑ دیا اور پھر جب وہ میری امی کو مارنے کے لیے اُٹھے تو انہوں نے دروازہ بند کر دیا اور میرے ابو  دروازے پر اینٹیں مارتے رہے، غصہ اتنا شدید تھا کہ آنکھیں بالکل سرخ ہوگئیں اور ان سے اپنا غصہ برداشت نہ ہوا جس کی وجہ سے میرے ابو نے یہ تین الفاظ بول دیے، یہ سب کچھ ہونے کے بعد اگلے دن انہوں نے اللہ سے اور میری امی سے معافی مانگی تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلاق کے الفاظ بولتے  وقت اگر غصہ اتنا شدید ہو کہ شوہر سے خلافِ عادت اقوال وافعال صادر ہونے لگیں تو  غصے کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی، چونکہ مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت  شوہر سے خلاف عادت افعال یعنی گھر کا سامان توڑنا، اپنا ہاتھ زخمی کرنا، دروازے میں اینٹیں مارنا وغیرہ  صادر ہوئے ہیں لہذا مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی شامی (4/439) میں ہے:قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله…………… فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved