• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے میں ’’میں نے اس کو فارغ کر دیا‘‘ کہنے کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا اپنی بیوی سے کسی بات پر جھگڑا چل رہا تھا جس کی وجہ سے میں نے اس کو منع کیا کہ ’’آپ کراچی نہ جائیں، اگر آپ کراچی گئیں تو میں آپ کو طلاق دے دوں گا‘‘ لیکن میرے منع کرنے کے باوجود وہ چلی گئی اور چھ ماہ کراچی رہی،  اس کے بعد جب وہ واپس آئی تو میں نے اس کو کہا کہ واپس گھر چلو، جس پر اس نے کہا کہ میں نہیں جاؤں گی، اس پر میں نے اسے کہا کہ ’’پانچ دن کا ٹائم ہے آپ گھر آ جائیں، نہ آئی تو میں فارغ کر دوں گا‘‘ اس کے بعد میں نے دوبارہ چند لوگوں کو اس کے گھر بھیجا جس پر اس نے پھر یہی کہا کہ میں گھر واپس نہیں جاؤں گی، اس پر میں نے اپنے بیٹے اور کچھ لوگوں کے سامنے غصے میں کہا کہ ’’میں نے اس کو فارغ کر دیا‘‘ ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت نہیں تھی، اس وقت وہ وہاں موجود نہیں تھی، اس کی عمر 62 سال ہے، وہ گھر واپس آنا چاہتی ہے۔ اس بارے میں ہماری راہنمائی کریں کہ ان الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں؟ اگر طلاق ہو گئی ہے تو کیا رجوع یا صلح کی گنجائش موجود ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو چکی ہے جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں جب شوہر نے  پہلی مرتبہ بیوی سے یہ کہا کہ ’’اگر آپ کراچی گئیں تو میں آپ کو طلاق دے دوں گا‘‘ تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ ’’طلاق دے دوں گا‘‘ مستقبل کا جملہ ہے اور مستقبل کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوتی، نیز شوہر کے الفاظ ’’نہ آئی تو میں فارغ کر دوں گا‘‘ کا بھی یہی حکم ہے۔

پھراس کے بعد جب شوہر نے اپنے بیٹے اور کچھ لوگوں کے سامنے غصے میں کہا کہ ’’میں نے اس کو فارغ کر دیا‘‘ تو ان الفاظ سے اگرچہ شوہر کی طلاق کی نیت نہیں تھی لیکن بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی کیونکہ یہ الفاظ کنایات طلاق کی تیسری قسم میں سے ہیں ، جن سے غصے  کی حالت میں نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

عالمگیری (1/384) میں ہے:في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا. درمختار (4/521) میں ہے: (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لاو فى الشامية تحته: والحاصل أن الأول يتوقف على النية في حالة الرضا والغضب والمذاكرة، والثاني في حالة الرضا والغضب فقط ويقع في حالة المذاكرة بلا نية، والثالث يتوقف عليها في حالة الرضا فقط، ويقع حالة الغضب والمذاكرة بلا نية.درمختار (5/42) میں ہے:(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)احسن الفتاوی (5/188) میں ہے:سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے "تو فارغ ہے ” یہ کون سا کنایہ ہے؟…… حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجرواجواب :الجواب باسم ملہم الصواب بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فقط اللہ تعالی اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved