• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ہبہ کے متعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ کے دادا جان کے پاس تقریبا سوا چھ ایکڑرقبہ تھا جو اسے کاشت کرواتا تھا بطوربٹائی کے یعنی مزارعت کے اور دادا جان کی زندگی میں سب بیٹوں کا انتقال ہو گیا صرف ایک بیٹی موجود ہے اور بندہ اور بندہ کی بہن یعنی ایک پوتا اور ایک پوتی ہے ۔بندہ کو جب کسی جانب سے خبر ملی کہ پوتے کو میراث نہیں ملتی تو بندہ پریشان ہو ا اور دادا کی قربت اختیار کی جس وجہ سے دادا جان نے کاشت کی ذمہ داری بندہ پر سونپ دی ،بندہ نے تقریبا دو سال داداجان کی زمین ان کی زندگی میں کاشت کروالی ،انہیں سابقہ مزارعین سے بندہ نے داد جان سے اصرار و مطالبہ کیا کہ ساری کاشت والی زمین میرے نام کروائیں اور حال یہ ہے کہ دادا جان بھی چاہتے تھے کہ میری ساری زمین اور کل ملکیت اسی میرے پوتے کی ہو ۔میرے اسی اصرار کے تحت دادا جان نے اپنے سب بھائیوں ،بیٹیوںاور دیگر برادری کے رو برو پٹواری سے کہا کہ یہ میرا کل رقبہ میرے پوتے کے نام کردیں یہ اس کا ہے ،اسی اثناء دادا جان کے بھائیوں نے کہا سارا نام نہ کروائیں کچھ رکھ لیں اچھا ہوتا ہے بعد میں ہو جائے گا نام ،تو داداجان نے کہا نہیں میں نے سارا دینا ہے ،تقریبا دو چار دن کے بعد دادا جان نے بندہ کو کہا کہ مجھے بعض احباب ورشتہ دار کہہ رہے ہیں کچھ اپنے نام رکھ لو اور بقیہ پوتے کے نام کروادیں ۔بندہ نے دادا جان کی اس بات کو تسلیم نہ کیا بلکہ انہیں یہ کہا اگر میرے نام کروانی ہے تو کل جائیداد کروائیں نہیں تو میں کچھ نہ لوں گا یعنی میرے نام کچھ نہ کروائو،اس پر دادا جان ناراض ہو گئے اور یہ کہنے لگے کچھ تو میں اپنے نام رکھوں گااور بقیہ تمہارے نام کروائوں گا اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو میں آپ سے ناراض رہوںگا۔

واضح رہے بندہ نے دادا جان کو کہا کہ جو رقبہ آپ اپنے نام رکھیں گے وہ حکومتی کاروائی کے مطابق بعد میں میراث بنے گا ،وہ آپ کی بیٹی کو ملے گا یعنی دادا کی بیٹی کو تو داداجان نے کہا نہیں آپ کو ملے گا بندہ نے کہا نہیں میرا ث بنے گا دادا جان نے کہا نہیں آپ کو ملے گا۔میرے بار بار کہنے پر دادا جان نے یہ کہہ دیا کہ اگر بیٹی کابنے تو دے دینا ۔

واضح رہے کہ دادا جان نے کہا میں یہ رقبہ اپنے نام اس لیے رکھ رہا ہوں کہ اگر آپ کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا نہ رہا اور آپ نے ہمیں خرچہ نہ دیا شادی کے بعد آپ ہمیں خرچہ نہیں دیتے اس لیے یہ رقبہ بطور تحفظ اپنے نام رکھا ہے اور جو میرے پاس ہے وہ بھی تمہارا ہے پھربندہ دادا جان کی خوشنودی کے لیے راضی ہو گیا اور کہا آپ جتنا اپنے نام رکھنا چاہتے ہیں رکھیں بقیہ میرے نام کروا دیں ،بعد ازیں دادا جان نے بندہ کے نام تقریبا 42 کنال لگوادیں یعنی نام کروادیں جو رجسٹری اور انتقال کی صورت میں بندہ کے پاس موجود ہے اور بقیہ تقریبا 11 کنال دادا جان کے نام ہیں جن کے بارے میں بندہ کو کہا گیا تھا کہ یہ بھی آپ کی ہیں ۔

واضح رہے کہ یہ بات چند لوگوں کے رو برو ہوئی تھی ،والدہ نے بندہ کو بتایا کہ داداجان نے اپنی وفات سے چند عرصہ پہلے اپنے بڑے بھائی سے کہا تھا کہ بقیہ گیارہ کنال بھی میرے پوتے کے نام کروانا ۔وفات سے تقریبا بیس گھنٹے پہلے اپنے بڑے بھائی کو چند لوگوں کے روبرو کہا کہ جو رقبہ میں نے اپنے نام رکھا ہے وہ بھی میرے پوتے کو دینا ۔

واضح رہے کہ دادا جان نے رقبہ میرے نام کروانے کے بعد بندہ کو ملکیت اور قبضہ کا کامل اختیار بندہ کے چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے نہ دیا تھا ۔ایسا نہ ہو کہ ساری جائیداد بیچ کر ضائع نہ کردے۔بندہ سے جو کام یا بات دادا جان کے مزاج کے خلاف ہوتی تو وہ غصہ کی حالت میں یہ بھی کہتے تھے کہ میں زمین واپس لے لوں گا اور بندہ کو وقتا فوقتا یہ بھی کہتے کہ میرے گھر سے نکل جائو میں جائیداد میں سے کچھ نہیں دوں گا ۔واضح رہے کہ بندہ نے دادا جان کو ان کی زندگی میںیہ بات کہی تھی کہ اگر آپ اپنی جائیداد میں اپنے بھائیوں ، بہنوں اور بیٹی کو دینا چاہیں تو دے دیں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں اس بات پر دادجان نے کہا نہیں میں انہیں نہیں دوں گا یہ آپ کی ہے۔

واضح رہے وفات سے تقریبا دوسال پہلے دادا جان نے مجھ سے یہ کہہ دیا کہ اب میرے سے کام نہیں ہوتا میری یاداشت بھی کمزور ہو گئی ہے اب آپ یہ رقبہ سنبھال لیں خود کاشت کرنا چاہتے ہیں یا کروانا چاہتے ہیں اور غصہ میں کہا بیچنا چاہتے ہیں آپ خود کریں۔اس کے بعد بندہ خود کاشت کرواتا رہااور دادا جان مجھ سے خرچہ لیتے تھے ۔کیونکہ بندہ ناتجربہ کار تھا اس لیے دادا جان کو جہاں بندہ کا نقصان ہوتا نظر آتا وہاں مداخلت بھی کرتے اور مشورہ بھی دیتے بعض دفعہ بندہ ان کا مشورہ مان لیتا اور بعض دفعہ بندہ اپنی مرضی کرتا تھا۔

واضح رہے بعض دفعہ دادا جان کاشت کے مشورے بھی دیتے تھے اور بعض دفعہ مداخلت کرتے تھے ۔

واضح رہے آج سے تقریبا تین سال قبل دادا جان کی وفات ہو گئی تھی ۔دادا جان کی کل جائیداد کی ملکیت بندہ کے پاس ہے ۔

نوٹ(۱)    واضح رہے داداجان نے عمر کے آخری حصے میں اپنی ساری جائیداد بندہ کے حوالے کردی تھی اور یہ کہا کہ یہ اپنا سب کچھ سنبھال لیں مجھے اب آپ نے روٹی اور خرچہ دینا ہے۔

(۲)واضح رہے دادا جان نے عمر کے آخری حصے میں اپنی ساری جائیداد بندہ کے حوالے کردی تھی اور دادا جان نے بندہ کو کہا یہ اپنا سب کچھ سنبھال لیں مجھے اب روٹی اور خرچہ دیتے رہنا کیونکہ دادا جان نے روٹی اور خرچہ ،دوسری ضروریات پوری کر نے کے لیے بندہ کو مناسب سمجھا جس کی ذمہ داری بندہ نے لے لی اس کے بعد بندہ نے سب جائیداد کا قبضہ لے لیا اور داداجان کی خدمت بندہ کے ذمہ رہی۔اب آپ سے پوچھنا ہے کہ:

(۱)           ایک ایسا کرنے پر دادا جان عنداللہ اور حقوق الوارثین بری الذمہ ہیں ؟

(۲)           داداجان کی کل جائیداد پر بندہ کی ملکیت جائز ہے ؟برائے کرم بندہ کوذمہ داریوں سے آگاہ فرمائیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سائل کے دادا نے مختلف موقع پر پوتے کے لیے جائیداد کی بابت ایسے الفاظ بولے ہیں جو ہبہ کے الفاظ ہیں جیسے ’’یہ جائیداد تمہاری ہے‘‘وغیرہ ۔اور کچھ جائیداد کا انتقال بھی پوتے کے نام کروادیاتھا جبکہ باقی کا اگرچہ انتقال نہیں کروایا مگر عملا قبضہ دیدیا تھا اس لیے ہبہ تام ہونے میں کوئی شبہ نہیں اس لیے یہ ساری جائیداد اب پوتے کی ہے ۔

باقی رہا یہ سوال کہ دادا کو اپنی جائیداد کے بارے میں ایسا کرنا چاہیے تھا یا نہیں ؟یہ اس پر موقوف ہے کہ ان کے دیگر ورثاء (جیسے سائل کی پھوپھی وغیرہ)اس ہبہ پرراضی ہیں یا نہیں ؟اگر راضی ہیں تو اچھی بات ہے ورنہ دادا کو اپنے جائز وارثوں کو محروم کرنے کا گناہ ہو گا ۔جس کے ازالے کی صورت اب یہ ہے کہ سائل ان کو کچھ دے دلاکرراضی کرلے۔

1۔في رد المحتار:411/8

والأصل أنه متي أضاف المقر به إلي ملکه کان هبة ولا يرد ما في بيتي لأنها إضافة نسبة لا ملک، ولا الأرض التي حدودها کذا لطفلي فلان فإنه هبة، وإن لم يقبضه، لأنه في يده إلا أن يکون مما يحتمل القسمة، فيشترط قبضه مفرزا للإضافة تقديرا بدليل قول المصنف: أقر لآخر بمعين ولم يضفه لکن من المعلوم لکثير من الناس أنه ملکه فهل يکون إقرارا أو تمليکا ينبغي الثاني فيراعي فيه شرائط التمليک فراجعه.

(قوله: ولا الأرض) لا ورود لها علي ما تقدم؛ إذ الإضافة فيها إلي ملکه. نعم نقلها في المنح عن الخانية علي أنها تمليک. ثم نقل عن المنتقي نظيرتها علي أنها إقرار، وکذا نقل عن القنية ما يفيد ذلک حيث قال: إقرار الأب لولده الصغير بعين من ماله تمليک إن أضافه إلي نفسه في الإقرار، وإن أطلق فإقرار کما في: سدس داري وسدس هذه الدار، ثم نقل عنها ما يخالفه.

ثم قال قلت: بعض هذه الفروع يقتضي التسوية بين الإضافة وعدمها فيفيد أن في المسألة خلافا، ومسألة الابن الصغير يصح فيها الهبة بدون القبض: لأن کونه في يده قبض فلا فرق بين الإقرار والتمليک بخلاف الأجنبي، ولو کان في مسألة الصغير شيء مما يحتمل القسمة ظهر الفرق بين الإقرار والتمليک في حقه أيضا لافتقاره إلي القبض مفرزا  ثم قال: وهنا مسألة کثيرة الوقوع وهي ما إذا أقر لآخر إلخ ما ذکره الشارح مختصرا.

وحاصله: أنه اختلف النقل في قوله: الأرض التي حدودها کذا لطفلي هل هو إقرار أو هبة، وأفاد أنه لا فرق بينهما إلا إذا کان فيها شيء مما يحتمل القسمة، فتظهر ثمرة الاختلاف في وجوب القبض وعدمه، وکان مراد الشارح الإشارة إلي أن ما ذکره المصنف آخرا يفيد التوفيق بأن يحمل قول من قال: إنها تمليک علي ما إذا کانت معلومة بين الناس أنها ملکه، فتکون فيها الإضافة تقديرا وقول من قال: إنها إقرار علي ما إذا لم تکن کذلک فقوله: ولا الأرض أي ولا ترد مسألة الأرض التي إلخ علي الأصل السابق فإنها هبة أي لو کانت معلومة أنها ملکه للإضافة تقديرا لکن لا يحتاج إلي التسليم کما اقتضاه الأصل لأنها في يده وحينئذ يظهر دفع الورود تأمل.

(قوله: فهل يکون إقرارا) أقول: المفهوم من کلامهم أنه إذا أضاف المقر به أو الموهوب إلي نفسه کان هبة، وإلا يحتمل الإقرار والهبة، فيعمل بالقرائن لکن يشکل علي الأول ما عن نجم الأئمة البخاري أنه إقرار في الحالتين وربما يوفق بين کلامهم، بأن الملک إذا کان ظاهرا للملک، فهو تمليک، وإلا فهو إقرار إن وجدت قرينة، وتمليک إن وجدت قرينة تدل عليه فتأمل فإنا نجد في الحوادث ما يقتضيه رملي، وقال السائحاني: أنت خبير بأن أقوال المذهب کثيرة والمشهور هو ما مر من قول الشارح والأصل إلخ. وفي المنح عن السعدي: أن إقرار الأب لولده الصغير بعين ماله تمليک إن أضاف ذلک إلي نفسه فانظر لقوله بعين ماله ولقوله لولده الصغير فهو يشير إلي عدم اعتبار ما يعهد بل العبرة للفظ اهـ.

قلت: ويؤيده ما مر من قوله ما في بيتي وما في الخانية جميع ما يعرف بي أو جميع ما ينسب إلي لفلان قال الإسکاف إقرار اهـ فإن ما في بيته وما يعرف به وينسب إليه يکون معلوما لکثير من الناس، أنه ملکه فإن اليد والتصرف دليل الملک، وقد صرحوا بأنه إقرار وأفتي به في الحامدية وبه تأيد بحث السائحاني، ولعله إنما عبر في مسألة الأرض بالهبة لعدم الفرق فيها بين الهبة والإقرار إذا کان ذلک لطفله ولذا ذکرها في المنتقي في جانب غير الطفل مضافة للمقر حيث قال: إذا قال أرضي هذه وذکر حدودها لفلان أو قال الأرض التي حدودها کذا لولدي فلان وهو صغير کان جائزا، ويکون تمليکا. فتأمل والله أعلم.

2۔في الهندية

ولو قال جعلت لک هذه الدار او هذه الدار لک فاقبضها فهو هبة هکذا في فتاوي قاضي خان ۔قوله هذه الدار لک اوهذه الارض لک هبة لااقرار کذافي القنية

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved