• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشترکہ کھانے کےاحکام

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک شخص کے گهرمیں مشترکہ نظام ہے رہن سہن کھانا پینا مشترکہ ہے البتہ کمائی کے ذرائع مختلف ہیں اور ان گھر والوں پر 3لاکھ قرض بھی ہے تو چھوٹے بھائی نے کمیٹی ڈال کے کچھ لاکھ روپے جوڑے عمرہ کے لیے ،اب اس کے لیے عمرہ پر جانا درست ہے شرعا یا قرض اتارناضروری ہے ؟حالانکہ اس چھوٹے بھائی نے ایک روپیہ بھی اپنی ذات کے لیے قرض نہیں لیا جو قرض لیا وہ گھر والوں نے ہی لیا ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:

(۱)قرض کس نے لیا تھا اور کس لیے لیا تھا ؟(۲)اب آپ کیا چاہ رہے ہیں کہ جس کی کمیٹی نکلی ہے وہ بھی قرض اتارے ؟

جواب وضاحت:

(۱) حضرت بڑا بھائی کاکوئی ذریعہ معاش نہیں تھاتو اس کےسسر نے اس کو 2لاکھ کارکشہ بنوادیااس کی سب کمائی گھر میں ہی آتی ہے،اور کچھ پیسے بہن کی شادی کے لیے والدہ نے کسی رشتہ دارا سے ادھار لیے۔ نیز جو کمائےہوتے  ہیں وہ پیسے والدین کو دیئے جاتے ہیں وہ گھر کا سارا نظام چلاتے ہیں۔(۲)میں نے تو عمرے کے لیے بہت مشکل سے تین لاکھ روپے جوڑے،اب جیسے شریعت کہے گی ویسے ہی آمنا۔میں یہ پوچھنا چاہ رہاہوں کہ اگر میں قرضہ نہ اتاروں عمرے پر چلاجاؤں تو کوئی قباحت ہے کہ نہیں؟گھر کانظام مشترکہ ہے یہ مدنظر رکھیے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہمارے عرف  اور معاشرے میں جب گھر کے چند افراد اکٹھے رہ رہے ہوں اور ان کا خرچہ بھی مشترک ہوتو کمائیوں کے نتیجے میں جمع ہونے والا سارا مال اور جو قرض ذمے میں ہوں،وہ سب مشترک سمجھا جاتا ہے چاہے وہ قرض کسی ایک فرد نے لیا ہو لہذا آپ نے جو پیسے اکٹھے کئے ہیں وہ بھی مشترک ہیں اور آپ بھی اس قرض کے برابر کے ذمہ دار ہیں،اس صورت میں قرض لے کر جو رکشہ  خریدا گیا ہے وہ بھی سب کا مشترکہ ہو گا نہ کہ صرف اس بھائی کا لیکن اگر وہ بھائی رکشہ صرف اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کا قرضہ صرف اس کی ذات پر ہو گا ۔البتہ اگر آپ کے گھر والے اور قرض خواہ راضی ہوں تو آپ ان پیسوں سے عمرہ پر جاسکتے ہیں (ماخذ قدیم فتوی)

فی التارترخانیه:3/480

اذا اراد الرجل ان یحج قالوا ینبغی ان یقضی دیونه ویرضی خصومه ویتوب من ذنوبه

حاشیة ابن عابدین(325/4)

مطلب اجتمعا فی دار واحدۃ واکتسبا ولا یعلم التفاوت فهو بینهما بالسویة 
تنبیه: یؤخذ من هذا ما أفتی به فی الخیریة فی زوج امرأۃ وابنها اجتمعا فی دار واحدۃ وأخذ کل منهما یکتسب علی حدۃ ویجمعان کسبهما ولا یعلم التفاوت ولا التساوی ولاالتمییز فأجاب بأنه بینهما سویة وکذا لو اجتمع إخوۃ یعملون فی ترکة أبیهم ونما المال فهو بینهم سویة ولو اختلفوا فی العمل والرأی ا ہ

امداد الفتاوی(515/3) میں ہے:

سوال:         ایک استفتاء آیا ہے جس کا جواب یہ سمجھ میں آتا ہے لیکن دو متضاد روایت قیل قیل کرکے لکھا ہے کس کو ترجیح دی جائے۔شامی (349)فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ:

تنبیه: یؤخذ من هذا ما أفتی به فی الخیریة فی زوج امرأۃ وابنها اجتمعا فی دار واحدۃ وأخذ کل منهما یکتسب علی حدۃ ویجمعان کسبهما ولا یعلم التفاوت ولا التساوی ولاالتمییز فأجاب بأنه بینهما سویة الخ

چند سطروں کے بعد لکھا ہے:

فقیل هی للزوج وتکون المرأة معینة له الااذا کان لها کسبا علی حدة فهو لها وقیل بینهما نصفان۔(والسلام)

الجواب:       میرے نزدیک ان دونوں روایتوں میں تضاد نہیں۔ وجہ جمع یہ ہے کہ حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی تعیین کبھی تصریح سے کبھی قرائن سے ہوتی ہے یعنی کبھی تو مراد اصل کا سب ہوتا ہے اور عورت کے متعلق عرفا  کسب  ہوتا ہی نہیں۔وہاں تو اس کو معین سمجھا جائے گا اور کہیں گھر کے سب آدمی اپنے اپنے لیے کسب کرتے ہیں جیسا کہ اکثر بڑے شہروں میں مثل دہلی وغیرہ کے دیکھا جاتا ہے وہاں دونوں کو کاسب قرار دے کر عدم امتیاز مقدار کے وقت علی السویہ نصف نصف کا مالک سمجھا جائے گا۔

فی الهندیه:3/480/(1/242)

ویکره الخروج الی الغزووالحج لمن علیه الدین وان لم یکن عنده مال مالم یقض دینه الاباذن الغرماء۔

اذا اراد الرجل ان یحج قالو ا!ینبغی ان یقضی دیونه ویرضی خصومه ویتوب من ذنوبه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved