• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(۱)والدین کابیٹے کی میراث میں حصہ(۲)سوتیلے بیٹے کامیراث میں حصہ،اوراس کی پرورش کی ذمہ داری (۳)بیٹوں کے ہوتے ہوئے پوتوں کاحصہ(۴)میراث می حمل کاحصہ

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی جس کا نام جاوید اقبال ہے 15 اپریل 2019ء کو ان انتقال ہوا۔ جب بھائی کی وفات ہوئی تو والدین حیات تھے۔ میرے بھائی نے دو شادیاں کی تھیں، ایک بیوی کو انہوں نے طلاق دے دی تھی، جس سے دو بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری شادی کی، جس کے پہلے شوہر سے دو بچے تھے۔

اب 3 مئی 2019ء کو والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر کچھ سوالات ہیں۔

1۔ کیا والدین کا بیٹے کی جائیداد میں حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اور کتنا؟

2۔ دوسری بیوی کی پہلے شوہر سے جو اولاد ہے اس کا حصہ ہے یا نہیں؟ اور ان کی پرورش کی ذمہ داری کس پر ہے؟

3۔ اور پہلی بیوی کی اولاد کا کتنا حصہ ہے؟

4۔ اور کیا بھائی کی اولاد کا والد صاحب (دادا) کی جائیداد میں حصہ ہے؟ جبکہ دوسرے بہن بھائی (بیٹے بیٹیاں) بھی موجود ہیں۔

5۔ دوسری بیوی کی میرے بھائی سے بھی اولاد ہے ایک بیٹا اور ایک حمل ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:

دوسری بیوی کے اولاد کا اپنا حقیقی والد زندہ ہے؟

جواب وضاحت:

جی زندہ ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جاوید اقبال کے کل ترکہ کو  168 حصوں میں تقسیم کر کے ان میں 28 حصے ان کے والد کو، 28 حصے والدہ کو، 21 حصے دوسری بیوی کو، 26 حصے پہلی بیوی سے بیٹے کو، 13 حصے پہلی بیوی سے بیٹی کو، 26 حصے دوسری بیوی سے بیٹے کو ملیں گے جبکہ 26 حصے دوسری بیوی  سے موجودہ حمل کے لیے محفوظ رکھے جائیں گے۔

نوٹ: یہ تقسیم حمل کو بیٹا تصور کر کے کی گئی ہے، اگر لڑکا پیدا ہو جائے تو یہی تقسیم برقرار رہی گی، جو 26 حصے محفوظ رکھے تھے وہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کے ہو جائیں گے۔

اور اگر لڑکی پیدا ہو جائے تو باقی ورثاء کے حصوں کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں، صرف بیٹے بیٹیوں کے حصوں کی تقسیم دوبارہ ہو گی، وہ اس طرح کہ پہلے ہم نے میت کے کل ترکہ کے 168 حصے بنائے تھے، اب 168 حصوں کے بجائے 144 حصے بنائیں گے، پھر اس 144 حصوں کے حساب سے دونوں بیٹوں(پہلی اور دوسری بیوی سے) میں سے ہر ایک کو 26-26 حصے اور دونوں بیٹیوں (پہلے سے موجود بیٹی اور نومولود بیٹی) میں سے ہر ایک کو 13- 13 حصے ملیں گے۔

1۔ مذکورہ صورت میں پہلے فوت ہونے والے بیٹے کے ترکہ میں ان کے والدین کا بھی حصہ بنتا ہے جو کہ اوپر مذکور ہوا۔

2۔ دوسری بیوی کی پہلے شوہر سے اولاد کا اپنے فوت ہونے والے سوتیلی باپ کی میراث میں کوئی حصہ نہیں۔ لیکن اگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور وہ اپنی خوشی سے ان کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

نیز جب دوسری بیوی کے اولاد کا اپنا حقیقی والد زندہ ہے تو ان کی پرورش اور خرچہ حقیقی والد کے ذمے ہے۔

3۔ پہلی بیوی کی اولاد کا حصہ ہے جو کہ اوپر بیان ہو گیا۔

4۔ دادا کے اپنے بیٹے بیٹیوں کی موجودگی میں پہلے فوت ہونے والے بیٹے کی اولاد کا حصہ نہیں۔ ہاں اگر ورثاء اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved