• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں تقسیم میراث کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جناب اعلی گذارش ہےکہ بندہ اپنی زندگی میں اپنی بیٹیوں اوربیٹوں کووراثت جوکہ ایک عددمکان جس کی مالیت

(10000000)ایک کروڑروپےہےدیناچاہتاہوں اپنااوراپنی بیوی کاحصہ اپنےپاس رکھناچاہتاہوں آج سےتقریبا10سال پہلےمیرابڑابیٹافوت ہوگیاتھاجس کی تاریخ وفات 09-1-7ہےاس کاایک بیٹا10سال کاہےجوکہ میرےپاس نہیں ہےوہ اپنی ماں کےپاس ہےجس نےمیرےبیٹےکےفوت ہونےکےبعدشادی کرلی تھی اورمیری بیوی بھی حیات ہےپوچھنایہ تھاکہ اس مکان کی وراثت میں ہم  سب کاکتناکتناحصہ بنتاہےمیرےاس وقت تین بیٹےزندہ ہیں اورایک فوت ہوگیاہےاس کےبیٹےکانام علی ولدشکیل ہےجواپنی ماں کےپاس رہتاہےاورمیری چاربیٹیاں ہیں شریعت کےمطابق ان سب کااورمیرااورمیری بیوی کاکتناحصہ بنتاہےبرائےمہربانی شریعت کےمطابق رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جب تک بندہ زندہ ہےتب تک جائیدادمیں شرعاکسی کاکوئی حصہ نہیں بنتاوراثت کاتعلق انسان کےفوت ہونےکےبعدسےہوتاہےزندگی میں اپنےہونےوالےورثاءکوجوکچھ دیاجائےیاجائیدادتقسیم کیاجائےاس کی حیثیت ہبہ (Gift)کی ہے۔

زندگی میں جائیدادتقسیم کرنےکی دوصورتیں ہیں۔

(1)اپنی اولادمیں سےلڑکےاورلڑکیوں کوبرابرحصہ دےیہ افضل ہے۔

(2)لڑکیوں کوایک ایک حصہ اورلڑکوں کودودوحصےدے۔یہ صورت بھی جائزہے۔

اپنےمرحوم بیٹےکاحصہ اپنےپوتےکودےسکتے ہیں۔

البنایہ شرح ہدایہ ج7ص286میں ہے:

ویتصرف المالك فى ملكه كيف شاء

شامی ج 8ص 583میں ہے:

وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم

قوله وعليه الفتوي اي علي قول ابي يوسف من ان التنصيف بين الذکر والانثي افضل من التثليث الذي هوقول محمدرملي.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved