• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وصیت اورہبہ کے متعلق سوال

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

(مرحوم )بیٹا لے پالک: بیٹی لے پالک :جو خاوند نے بہن سے لی ۔اس کے علاوہ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے ۔میری والدہ ********* نے لے پالک بیٹی اور بیٹا کے طور پر پالا تھا شناختی کارڈ پر ولدیت رفیع لکھوایا ۔محمد نے اپنی تمام جائیداد اپنے دونوں لے پالک بچوں میں تقسیم کردی تھی ،بعد میں بیٹے کو نافرمان ہونے پر اسے عاق کر دیا اور اپنی زندگی میں اس کو علیحدہ کر دیا تھا۔

1992 میں جب میرے نانا محمد رفیع انتقال کر گئے تو میری نانی ممتازبیگم شدیدعلیل ہوگئی تو میری والدہ رفعت امتیاز میری نانی ممتاز بیگم کو اپنے گھر لے آئیں اور ان کی دیکھ بھال کرنے لگیں۔ 1997میں میری والدہ رفعت امتیاز بھی انتقال کر گئیں اور 2007 میں میرے والد بھی انتقال کر گئے ،اس طرح پہلے اور بعد میں یعنی شروع سے ہی میری نانی ممتاز بیگم ہمارے پاس یعنی اپنی بیٹی کے چار بیٹوں کے پاس رہیں ،اب کچھ عرصہ پہلے ہماری نانی جس کو ہم ماں جی کہتے تھے اور ماں کا درجہ دیتے ہوئے ان کی خدمت بھی کرتے تھے ،انتقال کر گئی ہیں ان کی ملکیت میں مندرجہ ذیل چیزوں کا حکم دریافت کرنا ہے:

1.ایک عدد مارکیٹ جو ہم چار بھائیوں اور چار بہنوں کے نام تھی ،اس کا کرایہ ہم نے بخوشی اپنی نانی ممتاز بیگم کو وصول کرنے کی اجازت دے رکھی تھی ،ان کی وفات کے بعد جو کرائے کے رقم بچ گئی اس کی ملکیت کس کی ہوگی؟ ہم یہ جان کر بھی کرایہ وصول کرنے دیتے تھے آخرکار ہماری ملکیت ہی ہے۔ یہ رقم انتقال کے بعد ہماری ہی ہے اور نانی یعنی ممتاز بیگم نے وفات سے پہلے کئی بار انہوں نے کہا کہ میرے مرنے کے بعد یہ سب کچھ آپ ہی کا ہے  یعنی ہم چار بھائیوں کا۔

  1. 2. ذاتی کپڑے، ذاتی زیور( جو ہم نے خودگفٹ کیا یا ہمارے سسرال والوں)نانی ہونے کی حیثیت سے اور وہ ان تمام اشیاء کو واپس کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اس کا زبانی اظہار کئی موقع پر کیا تھا ۔یہ اشیاء کی تقسیم کیسے ہوگی؟
  2. 3. کچھ اشیاء انہوں نے اپنی بہو کو دی تھیں کہ یہ فلاں فلاں کو دینا ہے لیکن بہو نے یہ کہہ کر اپنے پاس رکھ لیں کہ

ماں جی آپ خود دیں جس پر انہوں نے بہو کو احساس بھی ایک دو دفعہ دلایا کہ تم نے چیزیں فلاں کو ابھی تک کیوں نہیں دیں، وہ چیزیں بہو کے قبضے میں ہیں ،اس دوران ان کا انتقال ہو گیا۔ ان اشیاء کے بارے میں کیا حکم ہے؟

  1. 4. کچھ چیزیں انہوں نے بہو کو گفٹ کی تھیں اور بہو کو اس پر قبضہ بھی دے دیا تھا اگرچہ بہو زبانی لینے سے انکار کرتی تھی لیکن اپنے پاس رکھ لی تھیں۔ ان اشیاء کے بارے میں کیا حکم ہے؟

5.اگر انہوں نے قابل زکوۃ اموال کی زکوۃ نہ دی ہو تو زکوۃ کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟

نوٹ: نانی ممتاز بیگم مرحومہ کی صرف 3ماں جایا بہنیں تھی جو کہ پہلے کی وفات پا چکی ہیں ان کی اولاد ہے ۔

مزید وضاحت

1.اکثر اوقات مختلف مواقع پر انہوں نے ہمیں کہا کہ مرنے کے بعد یہ تمام آپ کا ہے، آپ جس کو جیسے چاہے دو لیکن ہم نے ان سے کہا کہ ماں جی آپ اس طرح کی باتیں نہ کریں۔

  1. 2. دوران شدید بیماری اپنی ایک بہن کی بیٹی کو کچھ دینے کا میرے بڑے بھائی کو کہا ۔اس کے بارے میں کیا حکم؟بہنوں اور بہنوئی سب کا انتقال ہوچکا ہے۔ان کے بچوں اور بچیوں کی تعداد: 13 بیٹے 6 بیٹیاں ہیں.

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.مارکیٹ کا جو کرایہ آپ بہن بھائیوں نے نانی کو وصول کرنے دیا تھا وہ کرایہ آپ بہن بھائیوں کی طرف سے نانی کو ہدیہ ہے، لہذا وہ کرایہ نانی کی ملکیت ہے ،اس  کے بارے میں نانی کا یہ کہنا کہ ’’میرے مرنے کے بعد یہ سب کچھ آپ ہی کا ہے ‘‘ ان کی جانب سے آپ کے لیے وصیت ہے۔وصیت کل ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوتی ہے، باقی دو تہائی شرعی وارثوں کا ہوتا ہے۔

2.نانی کے ذاتی کپڑے یا ان کا ذاتی زیور (خواہ وہ زیور آپ بھائیوں کے سسرال والوں نے انہیں دیا ہو) بھی ان کی ملکیت ہے،چونکہ نانی یہ تمام اشیاء آپ کو گفٹ کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں، انہوں نے آپ کو گفٹ نہیں کیں ،اس لئے یہ کپڑے اورذاتی زیور شرعی وارثوں میں تقسیم ہوں گے۔

  1. 3. جو چیزیں بہو کو یہ کہہ کر دی تھیں کہ فلاں فلاں کو دینی ہے جب وہ چیزیں نانی کی زندگی میں ان لوگوں کو نہیں دی گئیں تو اب وہ بھی ترکہ میں شامل ہوکر ورثاء میں تقسیم ہوں گی.
  2. 5. اگر انہوں نے زکوۃ کی ادائیگی کی وصیت کی ہو تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں سے زکوۃ بھی نکالیں گے ورنہ شرعی ورثاء کی رضامندی کے بغیر زکوۃ نہیں نکالی جاسکتی۔
  3. 6. نانی نے بہن کی بیٹی کو کچھ دینے کا جو کہا وہ ان کی جانب سے وصیت ہے۔ اصولی طور پر شرعی وارث کے لیے وصیت کالعدم ہوتی ہے الا یہ کہ تمام ورثاء راضی ہوں اور مذکورہ مسئلے میں بہن کی بیٹی بھی شرعی وارث ہے ۔

وراثت کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے ایک تہائی مال میں سے وصیت پوری کرنے کے بعد باقی ترکہ تمام بھانجے بھانجیوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا( لڑکے کو لڑکی کادوگنا نہیں ملے گا)۔

الفتاوى الهندية (6/ 94)

 وإذا قال عبدي هذا لفلان وداري هذه لفلان ولم يقل وصية ولا كان في ذكر وصية ولا قال بعد موتي كان هبة قياسا واستحسانا فإن قبضها في حال حياته صح وإن لم يقبضها حتى مات فهو باطل

الدر المختار (6/ 760)

 ثم ) تقدم ( ديونه التي لها مطالب من جهة العباد )۔

الدر المختار (6/ 760)

وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا

حاشية ابن عابدين (6/ 760)

قوله ( وأما دين الله تعالى الخ ) محترز قوله من جهة العباد وذلك كالزكاة والكفارات ونحوها  قال الزيلعي فإنها تسقط بالموت فلا يلزم الورثة أداؤها إلا إذا أوصى بها أو تبرعوا بها هم من عندهم الخ

السراجی فی المیراث

ولوکانا لام المال بینهما للذکر مثل حظ الانثنین عند ابی یوسف باعتبار الابدان وعند محمد المال بینهما انصافا باعتبار الاصول ۔

فی الدر المختار

 لکن قول محمد اشهرالروایتین عن ابی حنیفة فی جمیع ذوی الارحام وعلیه الفتوی کذا فی شرح السراجیة لمصنفها وفی الملتقی وبقول محمد یفتی

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved