• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیمہ کی شرعی حیثیت

استفتاء

1۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام انشورنس ( بیمہ) کے بارے میں قران و سنت کی رو سے جائز ہے یا ناجائز؟

2۔ اگر کہیں کوئی صورت جائز ہے وہ کون سی اور کب حلال ہے وضاحت فرما دیں؟

3۔ انشورنس کے طریقہ کار سے متعلق کتابچہ بھی ہمراہ ہے جس کو حلال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اسی کے ساتھ دلیل کے طور پر کچھ علماء کرام کے اسمائے گرامی اور ان کی تحریروں کو دلیل بنایا گیا ہے۔

الجواب

1۔ شریعت کی روسے انشورنس ( بیمہ) ناجائز ہے۔کیونکہ اس کی تمام شکلیں یا تو سود پر مشتمل ہیں یا جوے پر یا دونوں پر، اور سود اور جوا قران و سنت کی رو سے قطعاً حرام ہیں۔

انما الحمر و الميسر و الانصاب و الازلام رجس من عمل الشيطان. و قال الله تعالي: و احل الله البيع و حرم الربوا. ( القرآن)

2۔ انشورنس کی جتنی بھی صورت رائج ہیں چاہے لائف انشورنس ہو یا دیگر شکلیں ہوں سب میں وہی بنیادی خرابی ( سود اور جوا) موجود ہے، اس لیے انشورنس کی کوئی بھی شکل جائز نہیں۔

3۔ آپ کے ارسال کردہ کتابچے میں کوئی شرعی دلیل نہیں اور جو آیات و احادیث لکھی ہیں وہ بالکل غیر متعلقہ ہیں۔ اور مختلف مشہور لوگوں کے جو اقوال پیش کیے گئے ہیں اول تو ان کے پیچھے قران و سنت کی کوئی دلیل نہیں، دوسرے ان کی یہ آراء کہاں سے حاصل کی گئی ہیں، عبارت کا سیاق و سباق کیا ہے؟ کس تناظر میں بات ہوئی ہے؟ یہ کچھ ذکر نہیں۔ چنانچہ مضبوط واضح شرعی اصول و دلائل اور تمام معتبر علماء جو انشورنس کو ناجائز کہتے ہیں ان کی تصریحات کے مقابلے میں ایسی مجہول اور مبہم عبارات کا اعتبار کیسے کیا جاسکتا ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved