- فتوی نمبر: 25-168
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کا کپڑے کا ایک جائز کاروبار ہے ،بکرا سے کہتا ہے کہ میں آپ کے کاروبار کی طرف لوگوں کی رہنمائی کروں گا اور گاہک آپ کے پاس بھیجوں گا اس گاہک سے جو بھی نفع آپ کو ہوگا اس میں دس فیصد میرا کمیشن ہوگا ۔
اس مسئلے میں زید اور بکر کا اختلاف ہے ،زید کا موقف ہے کہ فیصد کے حساب سے یعنی دس فیصد کمیشن لینا جس کاسوال میں ذکر کیا ہے جائز ہے ،بشرطیکہ گاہک کے ساتھ غلط بیانی اور دھوکہ دہی سے کام نہ لیا جائے اور دکاندار کمیشن لینے کی وجہ سے سامان مارکیٹ کے ریٹ سے زیادہ پر فروخت نہ کرے۔
في الشامي:6/63مطلب في أجرة الدلال تتمة قال في التاترخانية وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمامبکر کا موقف ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے جو کاروبار حلال و جائز ہو اس میں گاہک مہیا کرنے والے کے لئے اس کے عمل کے عوض اجرت مقرر کرنا جائز ہے ،بشرطیکہ اس طرح معلوم اور متعین ہو کہ اس میں نزاع کا اندیشہ نہ ہو ۔
صورت مسئولہ میں زیداور عمر کا یہ معاملہ کرنا کہ میں آپ کے کاروبار کی طرف لوگوں کی رہنمائی کروں گا اور گاہک آپ کے پاس بھیجوں گا یہ دلالی ہے ،اس کے بارے میں دس فیصد کمیشن مقرر کرنا جائز نہیں ،کیونکہ یہ اجرت مجہول ہے ، ہوسکتا ہے کہ کاروبار میں نفع نہ ہویا جو نفع ہو اس کی مقدار دلال کو معلوم نہ ہو ،اس لیے نزاع کا اندیشہ بہرحال ہے اس لیے جائز نہیں۔
شامی(6/37،طبع ایچ ایم سعید) میں ہے:قال في البزازية اجرة السمسار والمنادي والحمامي والصکاک ومالايقدرفيه الوقت ولاالعمل تجوز لما کان للناس به حاجة ويطيب الاجر الماخوذ لو قدر اجر الثل
زیداور بکر دونوں کے اختلاف کا خلاصہ یہ ہے کہ زید نفع میں سے مخصوص فیصد کی صورت میں کمیشن کو جائز قرار دیتا ہے اور بکر متعین رقم کو جائز کہتا ہے۔ مثلاایک سوٹ میں سو روپے کمیشن متعین کرے ۔
مفتی صاحب رہنمائی فرمائیں کہ جمہور فقہاء احناف کے نزدیک ان دونوں میں سے کون سی صورت جائز ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حنفیہ کے نزدیک زید کا مؤقف درست نہیں، کیونکہ کمیشن ایجنٹ کے لیے نفع میں سے مخصوص فیصد مقرر کرنا درست نہیں اور زید نے اپنے حق میں جو دلیل ذکر کی ہے وہ کل ثمن میں سے فیصدی حصہ مقرر کرنے سے متعلق ہے نہ کہ نفع میں سے۔ بکر کا مؤقف متقدمین فقہائے حنفیہ کے مطابق درست ہے لیکن متاخرین فقہائے حنفیہ کے مطابق درست نہیں اور بکر نے اپنے حق میں جو دلیل ذکر کی ہے اس میں متقدمین حنفیہ کے مؤقف کا ذکر ہے جبکہ زید کی ذکر کردہ دلیل میں متاخرین فقہائے حنفیہ کا مؤقف ذکر کیا گیا ہے۔
نوٹ: دلال اور کمیشن ایجنٹ کی اجرت کے جائز ہونے کی ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ فریقین کو معلوم ہو کہ درمیان والا شخص کمیشن ایجنٹ یا دلال ہے۔
فتاوی ھندیہ(4/ 451) میں ہے:دفع ثوبا إليه وقال بعه بعشرة فما زاد فهو بيني وبينك قال أبو يوسف رحمه الله تعالى إن باعه بعشرة أو لم يبعه فلا أجر له وإن تعب له في ذلك ولو باعه باثني عشر أو أكثر فله أجر مثل عمله وعليه الفتوى هكذا في الغياثية۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved