- فتوی نمبر: 25-211
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
کیا یوٹیوب پر چینل بنا کر اشتہارات کے ذریعے کمائی کرنا جائز ہے؟ جس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پہلے کوئی شخص اپنا چینل بناتا ہے جس کے یوٹیوب والے کوئی چارجز نہیں لیتے اور ہر ایک کو اختیار ہوتا ہے کہ اپنا چینل بنا لے اور جب چینل بنتا ہے تو اسی وقت یوٹیوب کی جانب سے اس سے پوچھ لیا جاتا ہے کہ کیا آپ اس چینل کی ویڈیوز سے کمائی بھی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟اگر چینل والا لکھ دے کہ میں کمائی کرنا چاہتا ہوں تو پھر یوٹیوب والے اس کی ویڈیوز پر اشتہارات چلاتے ہیں جن کے ذریعے کمائی ہوتی ہے اور یہ اشتہارات یوٹیوب والے اس کی ویڈیوز پر اس وقت چلاتے ہیں جب اس کے چینل کی مقبولیت (Rating)اور ناظرین (viewers) ایک خاص حد تک پہنچ جاتے ہیں نیز اشتہارات پر پیسے ملنے کی یہ ترتیب ہوتی ہے کہ جتنے لوگ اس اشتہار کو دیکھتے ہیں اسی حساب سے پیسے ملتے ہیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یوٹیوب پر اشتہارات کے ذریعے کمائی کرنا جائز ہے البتہ ہماری تحقیق کے مطابق ڈیجیٹل تصویر بھی عام تصویر کے حکم میں ہے اس لیے ایسی ویڈیوز بنا کر چینل پر لگانا جن میں جاندار کی تصویریں ہوں ناجائز ہے۔
توجیہ : یو ٹیوب پر اشتہارات کے ذریعے کمائی کرنے کے طریقے کا خلاصہ یہ ہے کہ چینل والا اپنا چینل یوٹیوب والوں کو اجرت پر دیتا ہے کہ وہ اس کے چینل پر اشتہارات چلائیں اور اس کے بدلے میں وہ ان سے اجرت لیتا ہے اور اجرت کی ترتیب باہمی رضامندی سے یوں طے کی جاتی ہے کہ وہ اشتہار جتنے لوگ دیکھیں گے اس حساب سے پیسے ملیں گے ،چونکہ اجرت ایک فارمولے کے حساب سے طے ہوتی ہے اس لیے اجرت کی جہالت مفضی الی النزاع نہیں ہوتی، لہذا مذکورہ طریقے سے اجرت طے کرنا جائز ہے۔
البتہ یوٹیوب کے ذریعے کمائی کرنے میں چند اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن کو ان کے جوابات کے ساتھ ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے
(1) یوٹیوب پر جو شخص چینل بناتا ہے اصلا تو جگہ اس کی ذاتی ہے ہی نہیں کہ پھر وہ اس کو یوٹیوب کو اجرت پر دے بلکہ وہ جگہ تو پہلے سے ہی یوٹیوب کی ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ابتداء چینل بنانے کے لیے جگہ یوٹیوب والے ہی دیتے ہیں لیکن جب اس جگہ پر کوئی شخص چینل بنا لیتا ہے تو وہ چینل اس کا ذاتی شمار کیا جاتا ہے اسی طرح اس پر چلنے والی ویڈیوز بھی جس پر اشتہارات چلتے ہیں اس کی ذاتی شمار ہوتی ہیں اور چونکہ انٹر نیٹ کی دنیا خود بھی ایک معنوی دنیا ہے اس لیے جب چینل کو عرف میں اسی شخص کا شمار کیا جاتا ہے تو گویا اس کا بھی ایک معنوی وجود ہوتا ہے لہذا جب وہ شخص یو ٹیوب کو اشتہارات کے لیے جگہ دے رہا ہے تو وہ اصلا اپنا چینل اجرت پر دے رہا ہے نہ کہ یوٹیوب کی ہی جگہ کو انہیں اجرت پر دے رہا ہے اس کی حسی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کرایہ پر یا عاریت پر کسی سے کوئی جگہ لے اور اس جگہ پر اپنی کوئی بلڈنگ بنا لے یا کسی پروگرام کے لیے کوئی اسٹیج وغیرہ لگا لے اور پھر اس جگہ کا مالک اس بلڈنگ یا اسٹیج پر اپنا کوئی اشتہار لگائے جس پر بلڈنگ یا اسٹیج والا اس سے اجرت لے تو چونکہ یہاں بلڈنگ اور اسٹیج اس شخص کی ذاتی ہے اس لیے اس کے لیے زمین کے مالک سے اپنی جگہ کا کرایہ لینا جائز ہوگا اسی طرح یہاں اگرچہ بنیادی جگہ یوٹیوب کی تھی مگر چینل چونکہ دوسرے شخص کا ہے اس لیے اس کے لیے یوٹیوب سے بھی اجرت لینا جائز ہوگا۔
(2) دوسرا اشکال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں اجرت مجہول ہے کہ نامعلوم کتنے لوگ اس ویڈیو کو دیکھیں گے اور کتنی اجرت بنے گی ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اگرچہ اجرت کی مقدار میں جہالت ہے لیکن چونکہ اجرت ایک فارمولے کے ساتھ منسلک ہے اور نتیجا معلوم ہوجائے گی جس کی وجہ سے آپس میں نزاع کا اندیشہ نہیں ہے اس لیے یہ جہالت مفسد نہیں بنے گی کیونکہ جہالت اسی وقت مفسد بنتی ہے جب کہ وہ مفضی الی النزاع ہو۔
(3) تیسرا اشکال یہ ہے کہ یوٹیوب والے جو اشتہارات چلاتے ہیں ان میں تصویریں اور میوزک بھی ہوتا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ یوٹیوب والوں کا اپنا فعل ہے جس میں چینل والے کا دخل نہیں ہے ، معقود علیہ مطلق اشتہار ہے خاص معصیت والا اشتہار نہیں اور عقد کے وقت یوٹیوب والوں کا ایسے اشتہار چلانا یقینی بھی نہیں اگرچہ عام عرف ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کوئی مسلمان ذمی کو گھر رہائش کے لیے کرایہ پر دے تو اگر وہ ذمی اس گھر میں شراب بھی پیئے تو اس سے اس مسلمان کو کوئی گناہ نہیں ملے گا کیونکہ مسلمان نے اسے گھر اس مقصد کے لیے کرایہ پر نہیں دیا یہ اس ذمی کا ذاتی فعل ہے ۔
المبسوط للسرخسي (16/ 75)ولا بأس بأن يؤاجر المسلم دارا من الذمي ليسكنها فإن شرب فيها الخمر أو عبد فيها الصليب أو أدخل فيها الخنازير لم يلحق المسلم إثم في شيء من ذلك لأنه لم يؤاجرها لذلك والمعصية في فعل المستأجر وفعله دون قصد رب الدار فلا إثم على رب الدار في ذلك۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved