• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک طلاقنامہ بھیجنے کے بعد دو صریح طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

میرا نام فاطمہ ریاض ہے، میری شادی 22 مارچ 2019 کو ہوئی، میرے شوہر کا نام عاقب سفیر ہے۔ شادی کے ایک ماہ بعد میرے شوہر کی پہلی لڑائی اپنے ساس سسر کے ساتھ سونے سے ہوئی،میرے شوہر اور سسر نے کہا کہ رات کو تم دونوں میاں بیوی ہمارے ساتھ کمرے میں سویا کرو، میرے بھائی وقاص اور میری والدہ نے آکر ہماری صلح کروا دی اس صلح کے بعد میرا شوہر آئے دن مجھ سے جھگڑنا شروع ہوگیا، نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی لیکن میں نے یہ معاملات اپنے گھر والوں کو نہیں بتائے۔ اس دوران میں امید سے بھی ہو گئی تھی، میرا سسر اکثر اپنے بیٹے کو اور مجھے باضابطہ کہتے رہے کہ فاطمہ کو بھیجو اس کے گھر واپس، لیکن میں خاموشی سے برداشت کرتی رہی۔

25 جون 2019 کو میرے خالو کا انتقال ہوا تو میں اس وقت اپنی والدہ کے گھر گئی جس کی اجازت میں نے اپنے شوہر سے لے لی اور دو دن میں اپنی والدہ کے گھر رہی، میری والدہ اور گھر والوں نے اصرار سے پوچھا کہ تمہارے سسرال والوں  کے ساتھ تمہارا رویہ کیسا ہے؟ جس پر میں نے کچھ اہم باتیں بتائیں جس میں بار بار دھمکی دینا کہ اس کو اس کے گھر بھیجو، میرے سسر اکثر دفعہ اپنے بیٹے سے کہہ چکے ہیں کہ فارغ کرو اس کو، اور بڑی لڑکیاں ہیں شادی کے لیے، ہمیں لڑکیوں  کی کمی نہیں ہے ہم تمہاری دوسری شادی کر دیں گے اور ایسا ہی چلتا رہا۔ یہ چند باتیں اپنی والدہ اور گھر والوں کو بتائیں تو میرے بھائی نے کہا کہ ابھی تم کچھ دن یہاں رہو، پھر میں تمہارے شوہر اور سسر سے بات کروں گا اور پھر بھیجوں گا۔ تقریبا دو اڑھائی مہینے بعد میرا بڑا بھائی وقاص، میری ممانی جان اور میرے ماموں جان مجھے میرے گھر چھوڑنے گئے تو وہاں پر میرے سسر،شوہر اور اس کے بڑے بھائی نے میری ممانی اور ماموں اور بھائی کی بہت بےعزتی کی اور بہت ناخوشگوار الفاظ استعمال کیے۔ میں امید سے تھی، میرے سسر نے کہا تم حمل صاف کرا دو، ہمارا خون ہے ہم خود اجازت دے رہے ہیں، جس پر میری ممانی، ماموں اوربڑے بھائی بڑے ناراض ہوئے، انہوں نے بہت سمجھایا کہ ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں لیکن لڑائی کافی بڑھ گئی، گالم گلوچ تک نوبت پہنچ گئی اور میرے سسرال والوں اور میرے شوہر نے مجھے گھر میں رہنے نہیں دیا اور مجھے میری والدہ کے گھر واپس بھیج دیا، میں واپس والدہ کے گھر آ گئی۔

23اگست 2019ء کو میرے شوہر نے یونین کونسل کی طرف سے طلاق نامہ بھیجا جسے میں نے وصول نہیں کیا، اس کے بعد میرے سسر نے یونین کونسل کو صلح کے لیے درخواست بھی دی جس پر یونین کونسلر امجد صاحب نے ہم سے رابطہ کیا اور میرے بھائی سے صلح کی بات کی، امجد صاحب نے کہا کہ سفیر صاحب (جو میرے سسر ہیں وہ) چاہتے ہیں کہ تمہارا بھائی سب کے سامنے آ کر معافی مانگے اور ہمیں اشٹام پیپربھی لکھ کر دے جس پر ہماری کچھ شرائط ہیں ان پر دستخط کرے اور پھر ہم صلح کریں گے، لہذا میرے خالہ زاد بھائی خواجہ عمران اس سلسلہ میں شامل ہوئے اور ان شرائط پر صلح کروا دی جس پر میرے بھائی نے پنچائت کے سامنے میرے سسر سے معافی مانگی اور اشٹام پیپر پر دستخط کی رضامندی میرے خالہ زاد بھائی خواجہ عمران نے بھر لی۔ اور میں 23 اکتوبر کو شرائط پر چوہدری امجد صاحب یونین کونسلر کے گھر سے اپنے سسرال چلی گئی شرائط درج ذیل ہیں:

1.موبائل فون نہیں دیں گے جب کبھی اپنی والدہ سے بات کرنی ہو تو میرا شوہر اجازت دے گا تب کروں گی (منظور)

  1. مہینے میں ایک بار اپنی والدہ کے گھر میں جاؤں گی شوہر رہنے کی اجازت دے گا یا نہیں دےگا اس پر عمل کرنا ہے (منظور)
  2. بھائی وقاص اور ولید دونوں مجھے ملنے نہیں آئیں گے(منظور)
  3. میری والدہ اور میری بہنیں بھی مجھے ملنے نہیں آئیں گی(منظور)

اور بھی بہت سی شرائط تھیں جن کو میں لکھ نہیں سکی مثلا یہ بھی شرائط میں تھا کہ ہم فاطمہ کو ماریں ، پیٹیں تمہارا بھائی، والدہ یا کوئی اور رشتہ دار مداخلت نہ کرے گا۔

20 جنوری 2020ء کو میرا بیٹا پیدا ہوا تو میں پورے 40 دن اپنے سسرال رہی تب میری ساس نے کہا کہ تم اپنی والدہ کے گھر میں کچھ دن رہنے چلی جاؤ کیونکہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ چھلہ نہانے کے بعد ہم اپنا پوتا پوتی گھرمیں نہیں رکھتے، میں اپنے شوہر،ساس، سسر کی اجازت سے ایک ہفتے کے لیے اپنی والدہ کے گھر رہنے آگئی، دو دن گزرے تھے کہ میرے شوہر نے فون کر دیا کہ آج گھر واپس آؤ، لیکن میں نہیں گئی اتوار کو میں نے اپنے شوہر کو فون کیا کہ مجھے آج گھر واپس لے جائیں لیکن میرے شوہر عاقب نے سختی سے منع کیا کہ  میں نہیں لینے آوں گا اور اگر تم آئی تو میں تمہیں دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دوں گا، پھر میں نے یہ بات اپنے خالہ زاد بھائی خواجہ عمران کو بتائی انہوں نے ثالثی چوہدری امجد صاحب یونین کونسلر کو فون کرکے سب حالات سے آگاہ کیا، پھر اگلے دن چوہدری امجد صاحب یونین کونسلر اور میرے خالہ زاد بھائی خواجہ عمران میری والدہ کے گھر آئے، یہ سارا قصہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں بات کرکے آپ کو بتاتا ہوں پھر اسی دن چوہدری امجد صاحب نے فون کر دیا کہ فاطمہ اور اس کے بیٹے کو اس کے گھر چھوڑ آئیں آپ سے کوئی کچھ بات نہیں کرے گا، میری ان سے بات ہو گئی ہے پھر میرے خالہ زاد بھائی خواجہ عمران مجھے اپنے بچوں کے ساتھ میرے گھر چھوڑنے چلے گئے جس پر میرے سسر نے میرے خالہ زاد بھائی خواجہ عمران سے گھر کے باہر ہی بدتمیزی شروع کردی جسے وہ برداشت کرتے رہے، گا لم گلوچ بھی کرتے رہے میں یہ سارا ماجرہ گھر کے اندر سے دیکھ رہی تھی اور میرے شوہر نے میرا سارا سامان گھر کے باہر گلی میں لا کر رکھ دیا جس پر میں بھی باہر آ گئی اور میں نے اپنے خالہ زاد بھائی کو کہا مجھے والدہ کےگھر  واپس لے چلیں ، میرے اصرار پر وہ مجھے گھر لے آئے۔ یہ سارا واقعہ 9 مارچ 2020ء کا ہے۔

9 مارچ سے میں اپنی والدہ کے گھر میں رہ رہی ہوں،  19 اپریل 2020 کو بعد نماز عصر گھر کے قریب میں اپنی بہن کے ساتھ اپنے بچے کے لیے خریداری کرنے گئی جس پر میرا شوہر میرے تعاقب میں تھا اور موقع ملتے ہی مجھ سے بات کرنے کو کہا میں ایک دکان کے باہر علیحدہ ہو کر اس کی بات سننے لگی میرے شوہر نے کہا کہ اچھا پھر تم نے میری باتیں نہیں مانی تو میں تمہیں اپنے نکاح سے نکال دوں گا، میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ ایسا مت کریں لیکن پھر میرے شوہر نے کہا کہ میری شرائط منظور ہیں کہ نہیں؟میں خاموش رہی پھر کچھ دیر بعد میرا شوہر مجھ پر بہتان بازی کرنے لگا میں پھر بھی خاموش رہی اور کہتی رہی کہ آپ ایسا مت کریں لیکن پھر آخر کار اس نے مجھ سے کہا کہ ’’میں نے تمہیں دوسری تیسری طلاق دی‘‘ جب میرا شوہر یہ الفاظ بول رہا تھا میں نے اپنے شوہر کے منہ پر ہاتھ بھی رکھا اور کہا کہ ایسا نہ کہیں لیکن میرا شوہر  یہ کہہ کر چلا گیا۔

اب میرا شوہر مجھ سے صلح کرنا چاہتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے تمہیں طلاق نہیں دی تھی، آپ مجھے بتائیں کہ میرا نکاح برقرار ہے یا نہیں؟ کیونکہ اب میرے شوہر کا والد مجھے اپنے گھر میں نہیں رکھنا چاہتا لیکن میرا شوہر مجھے کہتا ہے کہ میں کرائے پر گھر لے کر تمہیں  رکھوں گا۔

میں نے جو بھی لکھا ہے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر سچ لکھا ہے اگر کوئی کمی بیشی ہو گئی ہو تو میں اللہ تعالیٰ سے معافی کی طلبگار ہوں۔ فاطمہ ریاض

وضاحت مطلوب ہے کہ:

(۱)۔ 23 اگست 2019 کو شوہر نے جو طلاقنامہ بھیجا تھا اس کی کاپی ارسال کریں۔

(۲)۔ شوہر کا رابطہ نمبر دیں۔

جوابِ وضاحت:

(۱)۔ شوہر نے وہ طلاقنامہ پھاڑ دیا تھا اوربہت کوشش کے باوجود اس کی کاپی نہیں مل سکی۔

(۲)۔ شوہر کا رابطہ نمبر یہ ہے: ، عاقب سفیر

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا بیوی کے لیے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں۔

نوٹ: شوہر سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کوئی واضح بیان نہیں دیا اس لیے مذکورہ جواب بیوی کے بیان کے مطابق دیا گیا ہے۔

توجیہ: 23 اگست 2019 کو شوہر نے جو طلاقنامہ بھیجا تھا اس کی تحریر ہمارے سامنے نہیں کہ جس کی وجہ سے یقینی حکم لگایا جاسکے کہ اس سے کونسی طلاق واقع ہوئی اور کتنی ہوئیں لیکن چونکہ ایک رجعی طلاق تو طلاقنامہ سے ہو ہی جاتی ہے لہٰذا اس طلاقنامہ سے کم از کم ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی۔ جس کا حکم یہ ہے کہ اگر عدت کے اندر شوہر رجوع کرلے تو نکاح باقی رہتا ہے۔ اس طلاقنامہ کے وقت عورت حاملہ تھی اور حاملہ کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش تک) ہوتی ہے اس لیے 23 اکتوبر 2019 کو جب میاں بیوی کی صلح ہوئی اور بیوی شوہر کے گھر آکر رہنے لگی تو اس وقت تک بچے کی پیدائش نہیں ہوئی تھی اس لیے عدت کے اندر رجوع ہوگیا اور نکاح باقی رہا۔

اس کے بعد 19 اپریل 2020 کو شوہر نے جب بیوی سے کہا کہ ’’میں نے تمہیں دوسری تیسری طلاق دی‘‘ تو اگرچہ شوہر اس سے انکاری ہےلیکن طلاق کے معاملے میں عورت کی حیثیت قاضی کی طرح ہوتی ہے اس لیے اگر وہ شوہر  کا طلاق دینا خود سن لے یا کسی معتبر ذریعہ سے اسے معلوم ہوجائے تو وہ اس پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ مذکورہ صورت میں بھی چونکہ بیوی نے طلاق کے الفاظ خود سنے ہیں اس لیے اس سے دوسری اور تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی۔

رد المحتار (443/4) میں ہے:

وفي التتارخانية:…………… ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه………. وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اهـ ملخصا

بدائع الصنائع (3/289) میں ہے:

وأما شرائط جواز الرجعة فمنها قيام العدة، فلا تصح الرجعة بعد انقضاء العدة

در مختار مع رد المحتار (5/192) میں ہے:

(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة……… أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)

نیز (3/304) میں ہے:

فصل: وأما عدة الحبل فهي مدة الحمل وسبب وجوبها الفرقة أو الوفاة والأصل فيه قوله تعالى: وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن [الطلاق: 4] أي: انقضاء أجلهن أن يضعن حملهن.

رد المحتار (449/4) میں ہے:

والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه

نوٹ: اگر میاں بیوی طلاقنامہ کی کاپی مہیا کردیں یا کم از کم یہ لکھ کر دیدیں کہ اس میں کیا مضمون تھا تو اس کے مطابق جواب پر نظرِ ثانی کی جاسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تین طلاقیں نہ ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved