• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کی تعمیر کے لیے جمع شدہ رقم میں سے تعمیر کے بعدباقی بچ جانے والی رقم کو محفوظ کرنے کے لیےانتظامیہ کے پلاٹ خریدنے  کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں تعمیر کے لیے چندے کا اعلان کیا گیا تھا، جمع شدہ چندے سے تعمیرات کرنے کے بعد 14 لاکھ روپے بچ گئے ہیں، اب یہ بھی نہیں معلوم کہ کس نے کتنا چندہ دیا تھا، یہ 14 لاکھ مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں موجود ہے، ایک دفعہ پہلے بھی فراڈ ہو چکا ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ان پیسوں سے کوئی پلاٹ خرید لیں تاکہ پیسے محفوظ رہیں، مسجد کے ساتھ ایک پلاٹ موجود ہے جو ابھی بک نہیں رہا، ہمارا ارادہ ہے کہ جب مسجد کے ساتھ والا پلاٹ بکے گا تو 14 لاکھ سے لئے ہوئے پلاٹ کو بیچ کر یہ مسجد کے ساتھ والی جگہ لے لیں گے کیا ایسا کرنا درست ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

1- مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں کیسے فراڈ ہوا؟

2- کیا پلاٹ خریدنے میں فراڈ کااحتمال نہیں؟

3- پلاٹ کون خریدے گا اور اس کی رجسٹری وغیرہ کس کے نام ہوگی؟

4- جو پلاٹ خریدے گا وہ اپنا بھی کوئی نفع وغیرہ رکھے گا یا نہیں؟

5- ساتھ والے پلاٹ کے بکنے کے کتنے چانسز ہیں اور کب تک ہیں؟

جواب وضاحت(1) مسجد کے بینک اکاؤنٹ میں دو دفعہ فراڈ ہوا ہے

(الف) بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ ہونے کے باوجود انہوں نے پوری اماؤنٹ پر زکوۃ کاٹ لی، اس رقم کو واپس لینے کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑی، کئی دفعہ بینک کے چکر لگائے پھر کہیں جا کر واپسی ہوئی۔

(ب) ایک دفعہ بینک نے دھوکے سے ایک لاکھ روپے منہا کر لیے، اس کا دو تین سال بعد پتہ چلا جب حساب کیا۔ اس کی واپسی کے لیے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بہرحال وہ پیسے بھی واپس ہوگئے۔(2)جو پلاٹ خریدنے کا ارادہ ہے وہ ایک باقاعدہ سوسائٹی میں ہے اس لئے اس میں فراڈ ہونے کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہے۔(3) پلاٹ کی رجسٹری انتظامیہ میں سے کسی با اعتماد آدمی کے نام پر ہوگی۔(4) وہ اپنا کوئی نفع نہیں رکھے گا، مطلقا مسجد ہی کے لیے خریدیں گے۔(5) اس کا کچھ پتہ نہیں جب بھی پلاٹ بکے گا انشاءاللہ فورا مسجد کے لئے خرید لیں گے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مسجد کی تعمیر کے لیے جمع کی گئی رقم سے پلاٹ خریدنا جائز ہے، بشرطیکہ ایک تو انتظامیہ کا غالب گمان یہ ہو کہ چندہ دہندگان کو اس پر اعتراض نہ ہو گا، اور دوسرے یہ کہ جس آدمی کے نام پر پلاٹ کی رجسٹری ہو گی اس کے بارے میں انتظامیہ کا غالب گمان یہ ہو کہ وہ کوئی دھوکہ نہیں کرے گا۔

نیز احتیاطا اسٹام پیپر پر ایک تحریر بھی لکھ لی جائے کہ یہ پلاٹ خریدار کی ملکیت نہیں بلکہ ضرورت کی وجہ سے اس کے نام پر پلاٹ کی رجسٹری کروائی گئی ہے۔

عالمگیری (2/462) میں ہے:

القيم إذا اشترى من غلة المسجد حانوتا أو دارا وأراد أن يستغل ويباع عند الحاجة جاز إن كان له ولاية الشراء وإذا جازله أن يبيعه، كذا في السراجية.

عالمگیری (2/463) میں ہے:

الفاضل من وقف المسجد هل يصرف إلى الفقراء؟ قيل: لا يصرف وأنه صحيح ولكن يشتري به مستغلا للمسجد، كذا في المحيط.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved