• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ربیع الثانی کا نام ربیع الغوث رکھنا

استفتاء

1۔کیا ربیع الثانی کا نام بدل کر ربیع الغوث رکھنا صحیح ہے؟

2۔جو تحریری فتویٰ آ پ کو ملا ہے ۔بتائیں کیا یہ فتویٰ جو دیا گیا ہے وہ قرآن و سنت کی روشنی  میں ہے؟

الجواب

ربیع الثانی کا نام ربیع الغوث رکھنا حضورﷺ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین،تبع تابعین،ائمہ اربعہ اور علماء کرام ومشایخ عظام رحمہم اللہ سے لے کر  پندرھویں صدی تک کی تمام امت مسلمہ کے اجماعی تعامل کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز اور بدعت ہے۔

اگر کسی خاص مہینہ میں کسی خاص اللہ تعالیٰ کے نیک بندے کی پیدائش یا وفات یا کسی اور قابل ِذکرواقعہ کی وجہ سے اس مہینہ کی نسبت اس اللہ والے کی طرف کرنا جائز ہوتا تو سب سے پہلے ربیع الاول کو خود آقائے نامدارحضوراکرم ﷺ کی طرف منسوب کیا جاتالیکن نہ تو خود آپ علیہ الصلوة والسلام کی حیا ت مبارکہ میں ربیع الاول کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کی گئی اور نہ ہی آپﷺ کے وفات کےبعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آج تک کی امت مسلمہ نے ایسا کیا جب کہ ا س کے اسباب اور دواعی بھی موجو د تھے اور رکاوٹیں وموانع بھی کچھ نہ تھیں اور نہ ہی خود****  کی زندگی میں ایسا گیا اور نہ ہی ان  کی زندگی کے بعد سے لیکر آج تک امت کے اسلاف میں سے کسی نے ایسا کیا اگر یہ کام کسی خیر یا بھلائی  کا سبب ہوتاتو پندرھویں صدی کے کچھ مسلمان سبب قائم ہونے کے باوجود چودہ صدیوں تک کی امت مسلمہ سے اس میں سبقت نہ لیجاتے۔

حدیث "ماراٰہ المسلمون حسناً فهو عند الله حسن " میں المسلمون سے مراد یا تو صحابہ ہیں۔اگر عام بھی مراد لیں تو پھر مرادیہ ہے کہ سچے پکے مسلمان جو صحیح علم وعقیدہ والے ہوں اور مجتہد و متبحر ہوں۔ وہ لوگ مراد نہیں جو اعتقادی وعملی بدعات میں مبتلا ہوں ۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved