• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عمرہ کااحرام باندھنے کے بعدبالغ ہو،اورافعال عمرہ چھوڑنے کاحکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بچی اپنے والدین کے ساتھ مدینہ منورہ سے احرام کی حالت میں مکہ مکرمہ روانہ ہوئی اور سفر میں وہ بالغ ہو گئی۔ بقیہ لوگوں نے عمرہ کیا اور بچی اسی حالت میں بغیر عمرہ کیے واپس آگئی اور مدینہ منورہ آکر مثلاً بال وغیرہ کاٹ کر احرام سے باہر آگئی۔ یہ کہہ کر کہ یہ مشکل ہے کہ ہماری بچی احرام کی پابندیوں میں رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اب پاک ہونے کے بعد اس بچی کے لیے  عمرہ کے لیے جانا ضروری ہے اور اس نے جو احرام کی پابندیوں کی رعایت نہ کی تو اس پر دم آیا ہے یا نہیں؟ اور اس بچی کے احرام کی  ابتدائی حالت تو نفل کی ہے اور احرام غیر لازم ہے تو آیا بالغ ہونے کے بعد اس کے احرام کی یہی کیفیت ہے یا نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ احرام باندھنے کے وقت یہ بچی نابالغ تھی اس لیے عمرہ کیے بغیر بھی اگر اس کے بال کاٹ دیے گئے ہیں تو اس کی وجہ سے اس پر کوئی دم نہیں اور نہ ہی اس عمرے کی قضا اس کے ذمے ہے۔

مناسک ملا علی قاری (112) میں ہے:

ينعقد إحرام الصبي المميز ….. (و ينبغي لوليه أن يجنبه) ….. (من محظورات الإحرام) …. (و إن ارتكب) أي الصبي شيئاً من المحظورات (لا شيء عليه) أي و لو بعد بلوغه لعدم تكليفه قبله…… (و لو أفسد نسكه) فيه أنه لا يتصور منه الإفساد بالجماع فالمعنى أنه لو ترك أركانه جميعا…. (أو ترك شيئاً منه) أي من أركانه أو واجباته (لا جزاء عليه) لترك الواجبات (و لا قضاء) أي بترك الأركان من المأمورات حيث شروعه ليس بملزم له لأنه غير مكلف في فعله (و لو بلغ في إحرامه) أي في أثنائه.

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved