• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جہیزکےمتعلق سوالات

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

1.کیا قرآن وحدیث میں جہیز کا ذکر موجود ہے اگر ہے تو آیت و حدیث کا حوالہ دے کر بیان کریں؟

  1. کیا قرآن وحدیث میں جہیز کی ممانعت موجود ہے؟

3.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی حیات طیبہ میں نکاح کے جتنے واقعات وقوع پذیر ہوئے ان میں جہیز کی مقدار کیا تھی؟

4.کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں جہیز کی مقدار کا کوئی حد بندی مقرر کی گئی؟

  1. کیا اسلام میں جہیز کے تعین کے لیے کوئی ماڈل موجود ہیں؟
  2. بیٹی کا وراثت میں حصہ کی تفصیل بیان کریں؟

7.کیا جہیز کو وراثت کا متبادل تصور کیا جاسکتا ہے اکثر لوگ لڑکی کو اس لیے وراثت میں حصہ نہیں دیتے کہ اس کی شادی پر جہیز دیا تھا؟

  1. بیٹی کو وراثت نہ دینے پر وعید بیان کریں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)قرآن میں جہیز کا ذکر موجود نہیں البتہ حدیث میں ذکر موجود ہے ۔

مسند احمد ،مسند علي بن ابي طالب رقم الحديث 643

أخبرنا نصير بن الفرج قال حدثنا أبو أسامة عن زائدة قال حدثنا عطاءبن السائب عن أبيه عن على رضى الله عنه قال جهز رسول الله فاطمة فى خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر.

ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں ایک چادر ،ایک چمڑے کا مشکیزہ اور ایک تکیہ دیا تھا کہ جس کے اندر اذخر (خاص قسم کی گھاس)بھری ہوئی تھی۔

2)ممانعت موجود نہیں ۔

3)اس کی تحقیق کی نہ ضرورت ہے اور نہ ہی ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم تمام واقعات کی تحقیق کر سکیں۔

4)نہیں۔

5)نہیں۔

6)بیٹی کے ساتھ اگر بیٹا نہ ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں (1)بیٹی ایک ہواس صورت میں اس کو کل میراث کا آدھا حصہ ملتا ہے ۔(2) ایک سے زیادہ ہوں تو اس صورت میں اس کو کل میراث کا دو تہائی 3/2 حصہ ملتا ہے جو بیٹیوں میں برابر تقسیم ہوتا ہے۔اور اگر بیٹی کےساتھ بیٹا بھی  ہو تو اس صورت میں ایک حصہ بیٹی کو ملتا ہےاور دوحصے بیٹے کو ملتے ہیں ۔

7)جہیز وراثت کا متبادل نہیں۔

8)وارث خواہ بیٹی ہو یا کوئی اور ہو اسے وراثت سے محروم کرنا جنت سے محرومی کا باعث ہے۔

مسند احمد ،مسند ابي هريرة،رقم الحديث 7742

حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا عبد الرزاق بن همام ، انبانا معمر ، عن اشعث بن عبد الله ، عن شهر بن حوشب ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إن الرجل ليعمل بعمل اهل الخير سبعين سنة، فإذا اوصى حاف في وصيته فيختم له بشر عمله فيدخل النار، وإن الرجل ليعمل بعمل اهل الشر سبعين سنة فيعدل في وصيته فيختم له بخير عمله فيدخل الجنة”، قال ابو هريرة: واقرءوا إن شئتم تلك حدود الله إلى قوله عذاب مهين .

حضرت ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آدمی ستر سال تک اچھائی والے کام کرتا رہتا ہے ،پھر جب وصیت کرتا ہے تو وصیت میں ظلم کرتا ہے تو اس کاخاتمہ برے عمل کے ساتھ کر دیا جاتا ہے اور اس کو جہنم میں داخل کر دیا جاتا ہے۔اور ایک آدمی ستر سال تک برے کام کرتا رہتا ہے پھر وہ وصیت کرتے ہوئے عدل کرتا ہے تو اس کا خاتمہ اچھے عمل پر کردیا جاتا ہےاور اس کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ۔ترجمہ: یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ایسے لوگ ہمیشہ ان (باغات) میں رہیں گے، اور یہ زبردست کامیابی ہے،اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا، اسے اللہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کو ایسا عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔نساء 13،14

سنن ابن ماجه ،كتاب الوصايا،باب الحيف في الوصية،2703

حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا عبد الرحيم بن زيد العمي ، عن ابيه ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة”.

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اپنے وارث کی میراث سے فرار اختیار کیا اللہ پاک قیامت کے دن جنت سے اس کے حصے کو ختم کردیں گے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved