- فتوی نمبر: 4-334
- تاریخ: 24 فروری 2012
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
شیخ ظہیر الدین مرحوم کے چار بیٹے ہیں، ان چاروں بیٹوں کے باہمی فیصلے سے جس مکان میں وہ رہتے تھے اس مکان کو چالیس لاکھ روپے کا بیچ دیا۔ ہر فریق کے حصے میں دس لاکھ روپے آئے، ان میں سے تین بیٹوں نے فیصلہ کیا کہ ان چالیس لاکھ روپے کو مل کر ایک مشترکہ کاروبار میں لگاتے ہیں جس کاروبار سے آنے والا منافعہ تینوں بیٹے ہی آپس میں بانٹ لیں گے۔ اور ایک بیٹا جو کہ سب سے چھوٹا ہے ایک دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کررہا ہے اس بیٹے کو ہم تینوں بھائی آپس میں مل کر اس کا خرچہ اٹھالیں گے اور جب کبھی وہ اپنی رقم جو کہ 10 لاکھ ہے مانگناچاہے تو اس کی رقم پوری کی پوری لوٹادیں گے۔ تو اس کے خرچے والے پیسے سود تو نہیں بن جائیں گےجبکہ مکان بیچنے سے پہلے بھی اس چھوٹے بھائی کاخرچہ ان بھائیوں نے والد صاحب کی فوتگی کے بعد سے اٹھایا ہوا تھا، اگر اب بھی اس کا خرچہ ویسی ہی چلتا رہے تو یہ پیسے کہیں سود تو نہیں بن جائیں گے؟
الجواب
بہتر صورت یہ ہے کہ آپ اس کا حصہ بھی کاروبار میں بطور شراکت شامل کرلیں اور اس کے حصے کا جو نفع ہو وہ اپنے پاس محفوظ رکھیں اور جب آپ اس کو اس کا حصہ دیں تو کل نفع سمیت اصل رقم واپس کردیں اور اگر وہ اس شراکت پر راضی ہو تو اس کا جمع شدہ نفع اسے واپس کر دیا جائے۔ جو رقم آپ اس پر خرچ کررہے ہیں وہ اس کے نفع میں سے منہا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
جو صورت آپ نے ذکر کی ہے اس میں سود تو نہ بنے گا لیکن یہ صورت بہتر نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved