- فتوی نمبر: 4-350
- تاریخ: 07 فروری 2012
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
بندہ الحمد للہ مسلمان ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت، نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور ختم نبوت پر کامل یقین اور شریعت محمدی کے عین مطابق زندگی گذرانے پر دنیا و آخرت میں کامیابی پر یقین رکھتا ہے۔
بندہ چونتیس سال تک محکمہ ******* میں اپنی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے۔ میں نے گذشتہ ایام میں ملازمین کوجی پی فنڈ پر دیے گئے انٹرسٹ کے بارے میں مختلف علمائے کرام ، مفکرین کے موقف پڑھے۔ چند علمائے کرام جی پی فنڈ پر دیے گئے انٹرسٹ کو ناجائز قرار دیتے ہیں جبکہ اکثر علماء حضرات و دیگر مفکرین کا مؤقف درجہ ذیل ہے:
” کیونکہ گورنمنٹ ملازمین کی تنخواہوں سے لازمی/ جبری طور پر گورنمنت فنڈ کاٹتی ہے اور منافع کم دیتی ہے۔ اکثر ملازمین یہ رقم اپنی سروس ختم ہونے پر وصول کرتے ہیں۔ اگر کوئی ملازم دوران سروس فوت ہوجائے تو اس کے ورثاء رقم وصول کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ رقم عرصہ دراز تک گورنمنٹ کے تصرف میں رہتی ہے ۔ اور موجودہ وقت کے مطابق اس کی ویلیو کم ہوجاتی ہے۔ لہذا اصل جمع شدہ رقم کے ساتھ جو زائد رقم گورنمنٹ ادا کرتی ہے اس کو انٹرسٹ کا نام دیا گیا ہے اس لیے جائز ہے”۔
میں قطعی طور پر اس بحث سے مطمئن نہیں ہوں آپ کی خدمت میں چند حقائق ، ثبوت پیش کرتا ہوں:
1۔ گورنمنٹ ملازم چاہے جس عہدہ، سکیل کا ہو گورنمنٹ اس کی تنخواہ سے لازمی، جبری طور جی پی فنڈ کاٹتی ہے۔
2۔ جی پی فنڈ کٹوانے سے پیشتر ملازمین کو اپنا جی پی فنڈ نمبر الاٹ کروانا پڑتا ہے جس کے لیے حکومت سے مہیاکردہ فارم پر کرنا پڑتا ہے ( نمونے کے طور پر فارم منسلک ہے )
3۔اسی فارم کے کالم نمبر 14 میں واضح طور پر گورنمنٹ ملازم کو یہ حق دیا گیا ہے کہ آیا وہ اپنے جی پی فنڈ کی جمع شدہ رقم پر انٹرسٹ لینا چاہتا ہے یا نہیں؟
4۔اس کے دوسرے منسلکہ فارم میں گورنمنٹ ملازم اپنے مرنے کے بعد ان ورثاء کا انتخاب کرا ہے جو اس کے مرنے کے بعد یہ فنڈ وصول کر سکیں گے۔
5۔ دوران سروس اگر ملازم کو قرضہ کی ضرورت ہوتو گورنمنٹ اسی فنڈسے ملازم کو قرضہ جاری کرتی ہے اگر ملازم اپنے جی پی فنڈ پر انٹرسٹ منافع سود لے رہا ہے تو اس کو رقم بھی انٹرسٹ کے ساتھ واپس کرنا ہوتی ہے اسی طرح اگر جو ملازم اپنے جی پی فنڈ پر انٹرسٹ نہیں لے رہا تو اسے اصل رقم واپس کرنا پڑتی ہے۔
اس وقت ملک مین گنتی کے چند ملازمین ہیں جو کہ مروجہ فارم شرائط کے مطابق اپنے جی پی فنڈ پر انٹرسٹ نہیں لے رہے جبکہ اکثر ملازمین تذبذب کا شکار ہیں۔ میں آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ
الف: لفظ انٹرسٹ جو کہ جی پی فنڈ فارم میں لکھا گیا ہے آپ شریعت محمدی، اسلامی معاشیات کے مطابق اس کی کیا تشریح فرمائیں گے۔
ب: شریعت محمدی کے مطابق سود کی کیا تعریف ہے۔
ج: کیا سرکاری ملازمین جو کہ اپنے جی پی فنڈ پر زائدرقم انٹرسٹ منافع سمجھ کر لے رہے ہیں جائز ہے یا ناجائز ہیں؟ آپ کی شریعت محمدی کے مطابق بروقت اور صحیح رہنمائی سے لاکھوں سرکاری ملازمین کی آخرت سنورجائے گی۔
الجواب
پراویڈنٹ فنڈ میں جبری کٹوتی پر محکمہ اپنی طرف سےجس رقم کا اضافہ کرتا ہے وہ رقم شرعی قاعدے کی رو سے ہدیہ اور ہبہ ہے۔ سود نہیں کیونکہ اس پر سود کی تعریف منطبق نہیں ہوتی۔
"سود (قرض کا) ایسا معاملہ ہوتا ہے جو دو طرفہ بنیاد پر فریقین کی رضامندی سے وجود میں آتا ہے”۔ پراویڈنٹ فنڈ میں ملازم کی تنخواہ کا جو حصہ جبراً کاٹا جاتا ہے وہ نہ تو ملازم کے قبضے میں آیا ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر ملازم کی ملکیت آئی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ملازم اس حصے میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا۔ یہ محکمہ کی یکطرفہ کاروائی ہے اس لیے یہ سود نہیں ہے۔ چنانچہ جب یہ اضافہ ملازم کو ملتا ہے تو یہ محکمے کی طرف سے ایک ہدیہ ہوتا ہے، سود نہیں ہوتا، اس لیے اسے ہدیہ سمجھ کر ہی لینا چاہیےسود یا نفع سمجھ کر نہیں۔جب یہ معلوم ہوگیا کہ اس اضافہ کی حقیقت سود نہیں ہے ہدیہ ہے تو حکومت خواہ اس کو سود کہے آپ اس کو ہدیہ سمجھتے ہوئے لے سکتےہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved