• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قرض پر نفع لینا

استفتاء

1۔ سلیم موٹرز اس کا یونس خان ڈیلر ہے۔ ابھی علاؤ الدین نے نیا زیرو میٹر فریم  لینا ہے۔ علاؤ الدین کے پاس بیس لاکھ روپے ہے۔ یونس خان ڈیلر کے پاس آیا، ابھی یونس خان نے کراچی فون کر کے نیا  فریم کا پتہ کیا۔ فریم تھا 45 لاکھ روپے کا۔ علاؤ الدین نے یونس خان ڈیلر سے کہا کہ آپ فریم خرید کر کراچی والوں سے 20 لاکھ روپے میں کر لوں۔ بقایا رقم 25 لاکھ روپے یونس خان آپ کرلیں۔ ابھی یونس خان نے فریم خرید لیا۔ ٹوٹل 45 لاکھ میں ، یونس نے کراچی سےفریم بلٹی کیا لاہور تک بلٹی کا کرائی تیس ہزار وہ بھی علاؤ الدین نےدیا۔ فریم علاؤ الدین نے باڈی والے کے پاس کھڑا کیا۔ ابھی نیا باڈی بنانا ٹائر ڈالنا، کمانی وغیرہ یہ سارا خرچہ علاؤ الدین نے جیب سے کرنا ہے۔ یعنی ٹوٹل باڈی ، ٹائر ، کمانی وغیرہ کا خرچہ دس لاکھ یہ علاؤ الدین  نے ادا کیا۔ ابھی گاڑی کاغذا یونس خان نے اپنے نام کر لیے ۔ ابھی علاؤ الدین نے یونس خان کو 25 لاکھ کے ساتھ 37.5 لاکھ روپے واپس کرنے ہیں۔ اور اس کا ماہوار قسط ایک لاکھ روپے علاؤ الدین  کو  دینا ہوگا۔ یہ منافع اور قسط یونس خان کے ساتھ پہلے خریدنے سے پہلے طے کیا ہے۔ یعنی مارکیٹ  کا یہ تو عام ریٹ ہے۔ ابھی گے باڈی بنانے میں مہینہ دو لگے یونس خان نے قسط تین مہینے  لینا ہے۔ اگر ان  35 یا 40  مہینے میں  کوئی قسط شاٹ ہوجائے۔ تو یونس خان نے کوئی جرمانہ یا زیادہ رقم نہیں لینا ہے۔ وہی جو اوپر 37.5 لاکھ طے ہوئے ہیں۔ یونس خان نے علاؤ  الدین سے وہی پورا کرنا ہے۔  جب یہ رقم یونس خان پورا کر لے تو اس کے بعد یونس علاؤ الدین کو ٹرانسفر لیٹر وغیرہ دے گا۔ باقی گاڑی فروخت کرنا یاجدھر چلانا یہ علاؤ الدین کے اختیار میں ہیں۔

2۔ علاؤ الدین کی ذاتی گاڑی ہے۔ اندازا قیمت 10 لاکھ روپے ہیں۔ ابھی علاؤ الدین کو 5 لاکھ کی ضرورت پڑی۔ علاؤ الدین نے باڈی یا انجن کا کام کرنا ہے۔ یا اپنی ذات کے لیے ضرورت ہے۔ یونس خان ڈیلر کے پا س آیا، علاؤ الدین اور کہا کہ آپ مجھے پانچ لاکھ روپے دیدیں ورنہ گاڑی بھی آپ اپنے نام کرلیں۔ یونس خان نے کہا کہ ان پانچ لاکھ روپے کا 2.5 لاکھ منافع ہوگا۔ یعنی ٹوٹل علاؤ الدین آپ نے 7.5 لاکھ رقم واپس کرنا ہو گا۔ ماہواری قسط کے حساب سے ماہواری قسط 2.5 ہزار ہوگا۔ قسط شاٹ ہونے میں یونس خان زیادہ رقم یعنی جرمانہ نہیں لے گا۔ رہی  7.5 لاکھ رقم پورا کرے گا۔ علاؤ الدین نے 5 لاکھ رقم  اور جو اپنا گاڑی تھا وہ بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ سودا ہوا۔ کلیئر ہونے کے بعد علاو الدین کو ٹرانسفر لیٹر وغیرہ یونس خان دے گا۔

3۔ کہ علاو الدین نے گاڑی لینا تھا۔ یونس خان ڈیلر کے پاس آیا کہ فیصل آباد میں گاڑی ہے اس کا سودا کرنا ہے۔ لیکن میرے پاس موقع پر تین لاکھ ہے۔ اور گاڑی کا سودا ہوجائے گا۔ پندرہ لاکھ کے لگ بھگ ۔ یہ بقایا رقم بارہ لاکھ روپے یونس خان ڈیلر آپ نے دینے ہیں۔ یونس خان نے کہا کہ جا گاڑی کا سودا کر لو۔ یہ بقایا رقم میں دوں گا۔ ابھی علاو الدین فیصل آباد جاتا ہے۔ اور گاڑی کا سودا یہی پر مالک کے ساتھ ڈن کرتا ہے۔ موقع پر تین لاکھ علاو الدین نے دیے۔ اور بقایا رقم  بارہ لاکھ یونس نے بھیج دیے۔۔ گاڑی یونس خان اپنے نام کراتا ہے۔ اور قسط شروع کر دیتا ہے۔ ابھی ان بارہ لاکھ روپے منافع ڈال کر چھ لاکھ روپے کے ساتھ علاو الدین ٹوٹل اٹھارہ لاکھ یونس خان کو واپس کرنے  ہونگے۔ لیکن اگر قسط شاٹ ہوجائے تو یونس خان نہ جرمانہ اور نہ زیادہ رقم لے گا۔

4۔ ڈیلر یونس خان کو پہلے سے میں گاڑی کا قسط دیتا ہوں۔ یعنی پندرہ ہزار ابھی آگے مجھے دو لاکھ روپے کی ضرورت پڑگئی۔ گاڑی مرمت کے لیے یا دوسری گھر وغیرہ کام کے لیے ابھی میں یونس خان کے پاس جاتاہوں کہ یہ گاڑی پہلے بھی آپ کے نام ہے۔ میں ماہوار قسط دیتا ہوں۔ یہ دو لاکھ اسی گاڑی کے اوپر دیدو۔ اور قسط شروع کرو۔ ابھی میں دو لاکھ کے ساتھ تین لاکھ واپس کر دیتا ہوں۔ماہوار قسط دس ہزار ہوگا۔ پہلے پندرہ ہزار تھا۔ ابھی دس ہزار یہ ہوگا۔ یعنی ٹوٹل قسط پچیس ہزار دیتا رہوں گا۔ قسط شاٹ ہونے کا کوئی زیادہ منافع یا جرمانہ یونس خان نہیں لیتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ 3  مذکورہ صورتیں جائز نہیں، کیونکہ فریم یا گاڑی علاو الدین نے اپنے لیے خریدی ہے۔ اور یونس خان نے اسے پچیس لاکھ روپے یا بارہ لاکھ روپے بطور قرض دیے ہیں جس پر نفع حاصل کرنا سود  ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یونس خان نے گاڑی اپنے نام گارنٹی کے طور پر ٹرانسفر کروائی ہے۔  اس کے متبادل دو صورتیں ہوسکتی ہیں:

۱۔ یونس خان علاو الدین کے ساتھ شریک ہو کرپیسے ملا کر دونوں اکٹھے فریم یا گاڑی خریدیں، پھر یونس خان علاو الدین کو اپنا حصہ آگے قسطوں میں بیچ دے۔

۲۔ یونس خان کراچی سے فریم یا فیصل آباد  سےگاڑی خود خرید کر علاو الدین کےہاتھ 57.5 لاکھ یا 21 لاکھ روپے میں فروخت کردے، جس میں سے بیس لاکھ یا تین لاکھ نقد وصول کر لے باقی قسطوں میں لے لے۔

2۔ 4 ۔مذکورہ دونوں صوتیں بھی ناجائز ہیں کیونکہ قرض پر نفع حاصل کرنے کی ہیں جو کہ سود ہوتا ہے۔ لہذا یونس خان اس کے بجائے علاو الدین کو گاڑی یا گھر کے جس سامان کی ضرورت ہے وہ خود خرید کر آگے اس کے ہاتھ قسطوں کی شکل میں بیچ دے۔

قسطوں میں اگر کوئی اور ناجائز شرط نہیں لگائی جاتی تو چاروں صورتوں میں قسطوں کی مذکورہ صورت جائز ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved