- فتوی نمبر: 16-101
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک عورت نے درج ذیل وجوہ کی بنیاد پر عدالت پاکستان سے خلع کی درخواست کی:
1۔شوہر نان نفقہ فراہم کرنے سے قاصر تھا بایں صورت کے باوجود پیسہ ہونے کے محض غیر ذمہ داری اورلا ابالی پن کی وجہ سے ایک خطیر رقم جو اسے کاروبار کے لیے فراہم کی گئی تھی سب اجاڑ دی۔تین سال تک عورت اس کے ساتھ رہی،دو بچے بھی ہوئے اس عرصے میں، بیوی کے خرچ وضروریات سے لے کر کمسن بچوں کے لئے لباس اور خوراک تک کے اکثر اخراجات بھی عورت کے والدین پورا کرتے رہے۔
2۔اس پر مستزاد یہ کہ خاوند کی اپنی والدین سے باہمی ناچاکیوں کی وجہ سے اکثر وقت ماں اور بچوں کا اپنی ننہال میں گزارا ،خاوند کا رویہ عورت کے رشتہ داروں بالخصوص والدین سے توہین آمیز رہا۔
3۔ایک مرتبہ عورت پر دست اندازی کی بھی نوبت آئی۔
4۔شوہر نے باوجود تنگدستی کے دوسرا نکاح کر لیا اور دونوں بیویوں کے اخراجات اٹھانے کی یقین دہانی کراتےرہے۔
5۔شوہر کے متعلق کچھ قرائن نشہ آور اشیاء کے استعمال کے بھی ملے۔
6۔مستقبل میں شوہر میں عدم بہتری کے واضح امکانات کی بنا پر خلع کی درخواست عدالت میں دائر کی گئی جس پر عدالت پاکستان کے تحت خلع کا فیصلہ جاری کردیا گیا اور مقامی یونین کونسل کے تحت ماہانہ تین مصالحتی نشستیں باقی ہیں۔جبکہ شوہر نے اس فیصلے پر عدم رضامندی ظاہر کی۔کیا یہ عدالتی فیصلہ شرعا معتبر ہے؟
محمد صبیر شمسی03234184246
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہماری معلومات کے مطابق اگر خاوند نان نفقہ دینے کی حامی بھر لیتا ہے تو فسخ نکاح نہ ہوگا۔ تاہم آپ کسی اور دارالافتاء سے رابطہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ دباؤ ڈال کر شوہر سےزبانی بائنہ کہنا طلاق لے لیں۔
مذکورہ صورت میں اگر واقعتا (۱)شوہر نان نفقہ نہیں دیتا تھا اور (۲)بیوی نے اپنا نان نفقہ معاف بھی نہیں کیا تھا(۳) اورتنسیخ نکاح کی درخواست بھی اس وجہ سے دی تھی کہ اس کا شوہر اسے نان نفقہ نہیں دیتا تھا (۴)اور عدالت کے کہنے پر بھی شوہر نان نفقہ دینے پر آمادہ نہ ہوا (۵)اور عدالت نے نان نفقہ نہ دینے کی بنا(بنیاد)پر تنسیخ نکاح کا فیصلہ کردیا (۶)اور شوہر بیوی کی عدت گزرنے تک نان نفقہ دینے پر آمادہ نہیں ہوا تو ایسی صورت میں عدالت کا فیصلہ بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق شمار ہو گا جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہو جائے گا اور بیوی کو آگے نکاح کرنے کی اجازت ہو گی ۔
چنانچہ حیلہ ناجزہ (ص:72طبع دارالاشاعت ) میں ہے:
’’زوجہ متعنت (جو باوجود قدرت کے بیوی کے حقوق نان نفقہ وغیرہ ادا نہ کرے)کو اول تو لازم ہے کہ کسی طرح خاوند سے خلع وغیرہ کرلے لیکن اگر باوجود سعی بلیغ کے کوئی صورت نہ بن سکے تو سخت مجبوری کی حالت میں مذہب مالکیہ پر عمل کرنے کی گنجائش ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور سخت مجبوری کی دوصورتیں ہیں :ایک یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یعنی نہ تو کوئی شخص عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہو اور نہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہوالخ‘‘
تنبیہ:مذکورہ صورت میں اگرچہ خود عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو لیکن مالکیہ کے نزدیک یہ شرط نہیں ’’حیلہ ناجزہ ‘‘ میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق نہ لینے کی وجہ عدم ضرورت بیان کی گئی ہے ۔
چنانچہ حیلہ ناجزہ کے حاشیہ(72) میں ہے:
وهذا ا لحکم عند المالکیة لا یختص بخشیة الزنا وافلاس الزوجة لکن لم ناَخذ مذهبهم علی الاطلاق بل اَخذناہ حیث وجدت الضروۃ المسوغة للخروج عن المذهب‘‘
ہم نے اپنے فتوے میں مذہب مالکیہ کو علی الاطلاق اس لیے لیا ہے کہ اب عدالتیں انپے فیصلوں میں اس شرط کو (یعنی عورت کے حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش کی قدرت کو )ملحوظ نہیں رکھتیں اور قضائے قاضی رافع للخلاف ہوتی ہے ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved