- فتوی نمبر: 16-310
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
محترم مفتی صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
میرا نام ذوالفقار علی ہے۔ میرے چچا زاد بھائی کا نام ساجد رضا ہے۔بھائی ساجد نے لاہور میں سیلز مین کے طور پر کام شروع کیا ۔ٹی شرٹ لے کر لوگوں کی دکانوں پر دیتے تھے۔پھر انہوں نے مجھے (ذوالفقار علی)بلا لیا۔ انار کلی میں ایک دوکان بنائی جہاں مجھے بٹھایا۔ میں بنیادی طور پر زمیندار ہوں اور تجارت کا تجربہ نہیں رکھتا ۔ کچھ عرصہ انار کلی میں رہا پھر یہاں سے دوکان ختم کر کے ساجد صاحب مجھے اسلام آباد چھوڑ آئے۔ یہ لاہور سے مجھے ٹی شرٹ بھیجتے تھے اور بتا دیتے تھے کہ اس ریٹ پر اسکو بیچنا ہے۔ میں اسلام آباد ، پنڈی، پشاور، میر پور آزاد کشمیر کی دوکانوں پر مال بیچتا رہا۔ مال نقد اور ادھار دونوں طرح بکتا تھا۔ہفتہ وار جو وصولی ہوتی اس میں سے خرچہ الگ کر لیتا اور لکھ لیتا اور باقی پیسے ساجد صاحب کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتا یا کسی اور ذریعہ سے لاہور پہنچا دیتا۔ ہمارا کام اچھا چل گیا۔ مارکیٹ میں جتنی ڈیمانڈ تھی ہمیں اتنا مال نہیں ملتا تھا چنانچہ میں نے ساجد صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ کچھ مشینیں لگا کر اپنا مال بنانا شروع کریں۔ ساجد صاحب نے چھوٹی سطح پر مال بنانا شروع کیا۔اپنا مال تیار کرنے کے لیے ساجد صاحب نے ہمارے ماموں زاد بھائی اختر علی ملہی صاحب سے پیسے لیے(کتنے پیسے تھے؟مجیب۔جواب:معلوم نہیں۔سائل)۔ اسی دوران ساجد صاحب نے مجھ سے بھی کہا کہ تمہارے پاس جو زیور ہے اس کو بیچ دو۔ میں نے وہ زیور جس کی مقدار 5 تولے تھی ، فروخت کر کے پیسے ساجد صاحب کو دےدئیے۔(کتنی رقم تھی؟اورساجد صاحب کے پیسے بھی شامل تھےاور کتنے؟ مجیب۔ جواب: اب یاد نہیں، سائل )ہمارا کام اچھا چلنے لگا۔پھر ایک دفعہ ساجد صاحب نے مجھے اسلام آباد سے بلایا اور اختر ملہی صاحب کو بھی بلایا ۔
ساجد صاحب نے ملہی صاحب سے کہاکہ الحمد للہ کام اچھا چل گیا ہےاور نفع کے کچھ پیسے بھی زائد ہمارے پاس رکھے ہوئے ہیں تو اس کاروبار کے کیسے حصے بنائے جائیں؟ ملہی صاحب نے کہاکہ کاروبار میں آدھا حصہ ساجد کا اور آدھے میں اختر ملہی اور ذوالفقارعلی شریک ہونگے۔میں نے پوچھا کہ اسلام آباد اور میر پور میں جو کاروبارمیں کر رہا ہوں اس کی کیا صورت ہوگی؟ملہی صاحب نے کہا کہ یہ کاروبار جوآپ اسلام آباد اور میر پور میں کر رہے ہو یہ آپکا یعنی ذوالفقار کا ہوگااور فیکٹری سے آپ کو چوتھا حصہ بونس کے طور پر مل جائے گا۔ساجد صاحب نے اس جمع شدہ نفع میں سے ایک لاکھ پینتیس ہزار مجھے دئیے اور اتنے ہی ملہی صاحب کو دئیے اور اس سے دوگنے یعنی دو لاکھ ستر ہزار خود رکھے۔یہ وہ پیسے تھے جو نفع کے رکھے ہوئے تھے اور پورے کاروبار کی جو تقسیم ملہی صاحب نےطے کی تھی یہ اس کے حساب سے تقسیم کیے گئے تھے یعنی پورے کاروبار کا آدھا حصہ ساجد صاحب کا اور آدھے حصے میں ملہی صاحب اور میں شریک تھے۔میں اسلام آباد واپس چلا گیا۔ اسی دوران میرے بیٹے کا انتقال ہو گیا جس کے صدمے کی وجہ سے اب اسلام آباد میں میرا دل نہ لگتا تھا۔ چنانچہ میں نے ساجد صاحب سے کہا کہ میں لاہور آ رہا ہوں ۔ اسلام آباد کا کاروبار ساجد صاحب کے بڑے بھائی عابد رضا صاحب کے حوالے کر دیا۔ ساجد صاحب نے انارکلی لاہور میں مشترکہ پیسوں سے ایک دوکان خریدی۔ اس دوکان میں مجھے بٹھا دیااور اس دوکان کے بارے میں یہ طے ہوا کہ کل سیل کا 15 فیصد نفع کے طور پر نکالاجائے گا۔ 15 فیصد نفع میں سے آدھا میرا اور آدھے میں ساجد صاحب اور ملہی صاحب شریک ہونگے۔واضح رہے کہ اس دوکان میں ساجد صاحب کی مذکورہ بالافیکٹری سے ہی مال آتا تھااور دوکان کے نفع کی یہ تقسیم ابھی تک ویسے ہی چل رہی ہے جیسے طے ہوئی تھی کہ آدھا میں لیتا ہوں اور آدھے میں ساجد صاحب اور ملہی صاحب شریک ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ پھر ایک دفعہ ساجد صاحب نے کریم بلاک میں موجود اپنی فیکٹری جاتے ہوئے گاڑی میں مجھ سے یہ کہا کہ میں نے فیکٹری سے حصے کر دئیے ہیں۔ 24 لاکھ آپ کا بنتا ہے۔ 28 لاکھ 50ہزار ملہی صاحب کا بنتا ہے۔ میں نے کہا کہ بھئی میں پیسے لے کر کیا کروں گا۔ میں اکیلے کوئی کام نہیں کر سکتا مجھے اپنے ساتھ رکھیں۔یہاں ساجدصاحب نے ایک بات یہ کہی تھی کہ اگر آپ نے اپنے حصے کے پیسے لینے ہوں توانار کلی والی دوکان بیچ کر دوں گا اور آپ نے دوکان رکھنی ہے تو رکھ لو۔اس کے بعد پھر خاموشی سے کام چلتا رہا۔ اسی دوران ساجد صاحب نے مرغزارکالونی میں ایک کنال کا مکان بنوایا جس کی مختلف منزلوں میں ساجد صاحب ،ساجد کے بڑے بھائی عابد رضا صاحب اور میں مقیم تھے۔ اس کے علاوہ دو دوکانیں بھی مزید خریدیں۔ ایک دن عابد رضا صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ مفتی صاحب نے کہہ دیا ہےکہ تمہارا فیکٹری میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کے ایک دو دن بعد ساجد صاحب بھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تمہارا فیکٹری میں کوئی حصہ نہیں ہے۔میں نے پوچھا کہ کس مفتی صاحب سے پوچھا ہے ؟ کہنے لگے وہی مفتی صاحب ہیں جن سے آپ نے پوچھا ہے۔پھر ساجد صاحب کاغذ اور قلم لے آئے اور کہنے لگے کہ ہمارا جو معاملہ ہوا ہے اسے تحریری طور پر لکھ لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں نے آپ کو اپنا حصہ چھوڑ دیا۔ یہ میں نے اس لیے کہا کہ میں اس وقت مجبور تھا ۔ جس گھر میں میری رہائش تھی یہ گھر بھی انہی کا تھا۔ دوکان پر مال بھی انہی کا بیچتا تھا۔ دوکانیں بھی انہی کی تھیں۔ میں بنیادی طور پرزمیندار تھا اور ان سے الگ ہوکر کوئی کام نہیں کر سکتا تھا۔ تو میں نےلڑائی سے بچنے کے لیے یہ کہہ دیا کہ میں آپ کو اپنا حصہ چھوڑتا ہوں۔ ابمیں نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ میرا حصہ دیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم دو ثالث مقرر کرتے ہیں وہ جو فیصلہ کریں گے قبول ہوگا۔واضح رہے کہ اختر ملہی صاحب کو فیکٹری میں سے مستقل طور پر حصہ دیا جارہا ہے لیکن مجھے نہیں دیا جا رہا۔ اور مجھے یہ بات کہ تمہارا فیکٹری میں حصہ نہیں بنتا، اس وقت کہی گئی جب ساجد صاحب نے اپنا مکان بنا لیا اورتین دوکانیں بھی خرید لیں(یہ مکان اوردکان کن پیسوں سے بنائی گئی؟مجیب۔جواب:فیکٹری کے پیسوں سے تھے،سائل) اور دوکانوں کا کام خوب چلنے لگا اور فیکٹری بھی خوب چل گئی۔ اس سے پہلے یہ بات مجھ سے نہیں کی گئی۔سوال یہ ہے کہ اس ساری تفصیل کی روشنی میں فیکٹری میں میرا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟میں فیکٹری میں چوتھے حصے کا مطالبہ کرتا ہوں جیسا کہ ساجدصاحب کے پوچھنے پر اختر ملہی صاحب نے طے کیا تھا جبکہ ساجد صاحب کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں تمہارا کوئی حصہ نہیں۔
نوٹ:ساجد صاحب کو مذکورہ تحریر سے زبانی اتفاق کیا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ ذوالفقار نے بھی زیور بیچ کر کاروبار میں پیسےلگائے تھے ،اس لئے کاروبار (فیکٹری) میں ان کابھی حصہ بنتا ہے لیکن چونکہ سائل کے بیان کے مطابق اس وقت شرکاء کی طرف سے لگائی جانے والی رقم کسی کو بھی یادنہیں، اس لیے حتمی طور پر ہرایک کےحصے کا تعین نہیں ہو سکتا البتہ ایک موقع پرشرکاء نے آپس میں اپنے حصے طے کیے تھے یعنی کاروبار کا آدھا حصہ ساجد کااور ایک ایک چوتھائی( 4/1 )ذوالفقار اور اختر ملہی کا تو اس طے کرنے کی بنیادپریہ کہہ سکتے ہیں کہ آدھا حصہ ساجد کاہے اورایک ایک چوتھائی(4/1) حصہ ذوالفقار اوراخترملہی کاہے۔اس کی توجیہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس موقع پر اگر کسی شریک کا حصہ اس طے شدہ حصہ سے زائد بنتاتھا تو اس نے وہ حصہ باہمی رضامندی سے دوسرے شرکاء کوہدیہ کردیا اور مالکیہ کے نزدیک ہدیہ میں قبضہ کرنا شرط نہیں ہے، اس لیے یہ ہدیہ مکمل ہو گیا،لہذا شرکاء کے حصے آپس میں اس موقع پر طے شدہ تناسب سے ہی شمار کیے جائیں گے اس میں جھگڑے سے بھی حفاظت ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved