- فتوی نمبر: 16-6
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مختلف اجناس کی خرید و فروخت ہوتی ہے، زمیندار اپنا غلہ آڑھتی کے پاس لاتے ہیں اور آڑھتی اسے فروخت کر کے اپنی کمیشن لیتا ہے۔
دڑا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ کوالٹی اور ہلکی کوالٹی والی چیزوں کو آپس میں مکس کر کے فروخت کرنا۔
بعض آڑھتی مختلف جگہوں پر مختلف ریٹ پر مثلاً گندم خریدتے ہیں تو ان کے لیے ہر ایک کا ریٹ اور معیار یاد رکھنے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ساری گندم کو مکس کر کے ایک کوالٹی بنا لیتے ہیں اور فروخت کرتے وقت مکس کر کے جو سیمپل تیار ہوتا ہے وہ گاہک کو دکھا کر فروخت کرتے ہیں بعض گاہکوں کو پتہ چل جاتا ہے اور بعض کو پتہ نہیں چلتا لیکن سیمپل دکھا کر ہی فروخت کرتے ہیں۔
اسی طرح بعض لوگ سرسوں اور رائی کو مکس کر کے فروخت کرتے ہیں سرسوں میں تیل زیادہ ہوتا ہے اور رائی میں تیل کم ہوتا ہے لیکن دونوں کا مقصد تیل ہی ہوتا ہے اور اس کا بھی سیمپل دکھا کر ہی فروخت کرتے ہیں۔
دڑے کی ضرورت
-i بعض اوقات کسی جنس کے معیارات میں فرق ہوتا ہے تو ساری جنس کا ایک معیار بنانے کے لیے دڑا کرتے ہیں کیونکہ ہر ایک کا ریٹ اور معیار یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔
-ii بعض اوقات ایک ہی معیار کی چیز غلطی سے مختلف ریٹ پر خرید لیتے ہیں تو ان کا ایک ریٹ بنانے کے لیے دڑا کرتے ہیں۔
-iii بعض لوگ دھوکہ دینے کے لیے دڑا اس طرح کرتے ہیں کہ اوپر اچھی چیز ر کھتے ہیں اور نیچے ہلکی ہوتی ہے۔
دڑے کے فوائد و نقصان
دڑا کر کے (یعنی ایک جنس کی دو مختلف کوالٹی والی چیز کو ملا کر فروخت کرنا) آگے فروخت کرنے میں بعض صورتوں میں خریدار کو نقصان ہوتا ہے اور بعض میں اسے نقصان نہیں ہوتا۔ اگر خریدار بیج ڈالنے کے لیے مال خرید رہا ہے تو اس نوعیت کا مال خریدنے میں اسے نقصان ہو گا کیوں کہ ساری فصل ایک جیسی نہیں رہے گی۔ کسی کی لمبائی تھوڑی اور کسی کی زیادہ ہو گی۔
اگر خریدار مال اس لیے خرید رہا ہے کہ اسے خوراک کے طور پر استعمال کرے گا یا بیچے گا تو ایسی صورت میںدڑا کرنے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
دڑا کر کے فروخت کرنے کی مذکورہ بالا صورت کا کیا حکم ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
دڑا کرنے کی جن صورتوں میں خریدار کو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دڑا کیا گیا ہے تو ایسی صورتوں میں دڑا کر کے فروخت کرنا جائز ہے اور جن صورتوں میں خریدار کو واضح طور پر پتہ نہیں چلتا ان صورتوں میں بتائے بغیر فروخت کرنا جائز نہیں البتہ بتا کر فروخت کر سکتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
ترمذی ص ۱۷۸۴، ابواب البیوع مطبع دارالسلام للنشر والتوزیع
عن ابی هریرۃ ان رسول اللہ ﷺ مرعلی صبرۃ من طعام فادخل یدہ فیها فنالت اصابعه بللافقال۔ ((یا صاحب الطعام ما هذا)) قال اصابته السماء یا رسول اللہ۔ قال افلاجعلته فوق الطعام حتی یراہ الناس۔ ثم قال من غش فلیس منا
© Copyright 2024, All Rights Reserved