- فتوی نمبر: 16-14
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > اجارہ و کرایہ داری
استفتاء
غلہ منڈی ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مختلف اجناس کی خرید و فروخت ہوتی ہے، زمیندار اپنا غلہ آڑھتی کے پاس لاتا ہے اور آڑھتی اسے فروخت کر کے اپنی کمیشن لیتا ہے۔
بعض اوقات کوئی زمیندار آڑھتی کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بیج خرید کر دے دو تو یہ آڑھتی اس زمیندار کو بیج دلوا دیتا ہے اس طرح کرنے سے وہ زمیندار پہلے تو اخلاقی طور پر اور بعض اوقات ادھار دینے میں شرط کے مطابق پابند ہوتا ہے کہ جب فصل آئے گی تو وہ اس آڑھتی کے پاس مال لے کر آئے گا اور یہ آڑھتی اپنی کمیشن اور ادھار کاٹ کر باقی پیسے زمیندار کو دے دیتا ہے لیکن اب زمیندار اخلاقی طور پر بھی اس کی پابندی نہیں کرتا بلکہ باہر فروخت کر کے چلا جاتا ہے۔ اس میں اگر پتا چل جائے تو یہ آڑھتی دوسرے آڑھتی کے پاس پرچی لکھ کر بھیج دیتا ہے کہ اس زمیندار نے میرے اتنے پیسے دینے ہیں لہٰذا اپنی کمیشن کے ساتھ ساتھ میرے پیسے بھی وصول کرو۔ لہٰذا وہ آڑھتی اپنا کمیشن اور اس آڑھتی کا ادھار کاٹ کر باقی رقم زمیندار کو دے دیتا ہے۔
بعض دفعہ پتہ بھی نہیں چلتا اور زمیندار اپنا مال فروخت کر کے پیسے لے کر چلا جاتا ہے۔
کیا مذکورہ صورت میں زمیندار اخلاقی طور پر پابند ہے کہ اسی آڑھتی کے پاس مال لے کر جائے جس سے ادھار میں بیج خریدا تھا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ادھار خریدنے کی وجہ سے نہ تو زمیندار اخلاقاً یا شرعاً پابند ہے کہ وہ اسی آڑھتی کے پاس اپنا مال لائے جس سے ادھار بیج خریدا تھا اور نہ آڑھتی کے لیے زمیندار کو اخلاقاً یا شرعاً پابند بنانا جائز ہے کہ وہ اسی کے پاس مال لائے البتہ اتنا ضرور ہے کہ ادھار مال کی قیمت کی ادائیگی کا جو وقت طے ہوا ہے زمیندار بروقت ادائیگی کا اہتمام کرے اور اگر زمیندار اپنا مال دوسرے آڑھتی کے پاس لے جائے تو جس آڑھتی نے بیج ادھار دلوایا تھا اس کے لیے اپنا ادھار وصول کرنے کے لیے ذکر کردہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہے۔
(۱) نیل الاوطار (۵/۲۷۵)
وممایدل علی عدم حل القرض الذی یخرالی المقرض نفعاً ما اخرجه البهقی فی المعرفة عن فضالة بن عبید موقوماً بلفظ تحل قرض جر منفعة فهووجه، من وجوہ الربا۔
(۲) مرقاۃ المفاتیح:
وتطیرہ ما وقع لاما مامنا الاعظمؒ حیث لم بقف فی ظل جرار من کان یطالبة بدین معالابحدیث کل قرض جرمنفعة فهوربا۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved