• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گھنٹوں کےحساب سے اجرت طے کرنے کا متعلق سوالات

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ہم گزشتہ ایک سال سے ایک کلائنٹ کے ساتھ کام کر رہے ہیں جس کے ساتھ ہمارا معاہدہ یہ ہے کہ ہم آپ کو فی گھنٹہ چارج کریں گے یعنی جتنے گھنٹے کام ہوگا اسی حساب سے آپ کابل بنے گا ،کلائنٹ اچھا ہے اور وہ ہمارے اوپر اعتماد کرتا ہے ،ہم اسے جتنے گھنٹے بتا دیں وہ اس کے مطابق ہماری پیمنٹ کر دیتا ہے، ہم اکثرزیادہ وقت اسے بتا کر زیادہ پیسے چارج کرتے ہیں، کیونکہ بل اس کی توقع کے مطابق ہوتا ہے ،اس لئے وہ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ بعض اوقات وہ ہمیں ایک کام دیتا ہے اس کا اندازہ یہ ہوتا ہے کہ یہ کام بیس گھنٹوں میں ہو جائے گا لیکن ہم اسے وہ کام 10 گھنٹوں میں کردیتے ہیں جس پر وہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتاہے کہ  آپ بہت جلدی کام کر لیتے ہیں۔

ہماراجو ملازم اس کلائنٹ کا کام کرتا ہے وہ چونکہ ماہرو تجربہ کار ہے اس وجہ سے وہ دس گھنٹوں کا کام پانچ گھنٹوں میں کر دیتا ہے حالانکہ اگر اس کی جگہ کسی اور ملازم سے وہی کام کروایا جائے تو وہ شاید10 گھنٹوں کی جگہ بارہ پندرہ گھنٹے لگائے ہے۔اب سوال یہ ہے کہ:

1.مذکورہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مہارت اور تجربے کی بنیاد پر دس گھنٹوں کا کام پانچ گھنٹوں میں کر کے کلائنٹ سے دس گھنٹوں کے پیسے وصول کرنا شرعاً درست ہے؟

  1. اب تک کلائنٹ کو جو زیادہ پیسے چارج کیے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟

3.اگر مارکیٹ میں ایک شخص مثلا درزی اپنی خاص مہارت، تجربے اور شہرت کی بنیاد پر ایک کام کرنے کے لئے پیسے باقی لوگوں سے زیادہ وصول کرتا ہے تو کیا اس کے لیے ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ آپ کام کیا کرتے ہیں؟اور یہ کام ان کی جگہ پر جاکر کرتے ہیں یا اپنی جگہ پر ہی ان کا کام کرلیتے ہیں؟

جواب وضاحت :یہ ایک سوفٹ ویئر ہاؤس ہے، ہم یہاں بیٹھ کر آن لائن کام کرتے ہیں، ہم سافٹ ویئر اور ویب سائٹ بناتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1.مذکورہ صورت میں کلائنٹ کے ساتھ چونکہ گھنٹوں کے حساب سے اجرت طے ہوتی ہے، اس لیے جتنے گھنٹے میں کام ہوا ہے اتنے  ہی گھنٹوں کی اجرت کے آپ حقدار ہوتے ہیں،لہذازیادہ گھنٹے بتاکرزیادہ پیسے وصول کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے زیادہ دیدے تو یہ جائز ہے۔ نیز آپ کاریگر کی مہارت کی وجہ سے فی گھنٹہ زیادہ اجرت طے کر سکتے ہیں۔

  1. جو پیسے آپ نے زیادہ لیے ہیں وہ واپس کرنا ضروری ہیں،چاہے بغیر بتائے کریں، ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہےکہ جتنے پیسے آپ زائد لے چکے ہیں اس کے حساب سے آئندہ جتناوقت آپ کام کریں اس سے کچھ کم وقت بتائیں، تاکہ آپ کو کچھ کم پیسے ملیں اورسابقہ لیے ہوؤں سے کٹ جائیں۔

3.معاملہ کرتے وقت اگر ماہر کاریگر زیادہ اجرت طے کرے تو ایساکرنادرست ہے۔

نوٹ: مذکورہ صورت میں اصل یہ ہے کہ اجرت کام کے حساب سے طے کی جائے نہ کہ گھنٹوں کے حساب سے۔کیونکہ مذکورہ صورت میں کام کی گھنٹوں کے حساب سے اجرت طے کرنے میں متعدد خرابیاں ہیں تاہم اگر کلائنٹ کام کے حساب سے ہی اجرت دینے پر اصرار کرے تو مندرجہ بالا باتوں کا لحاظ رکھیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved