- فتوی نمبر: 25-292
- تاریخ: 16 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
1۔سعو دی عرب میں لوگ بکری، بھیڑ ،اوردنبہ کی اوجھڑی کے ساتھ اس کی خوراک کی آنت جو بہت لمبی ہوتی ہے اوجھڑی کے ساتھ صاف کر کے کھاتے ہیں ، بعض اوقات اس میں پیاز بھر کر پکاتے ہیں جو بہت ذائقہ دار ہوتی ہے مگر احناف کے نزدیک اس کے کھانے کا کیا حکم ہے وہ نہیں معلوم۔ راہنمائی چاہیئے۔
2۔ایک پرندہ جو چڑیا کی طرح بہت چھوٹا انگلی کے دو پو روں کے بقدر ہوتا ہے جسے ہجر ی پرندہ اور دُخل بھی کہتے ہیں۔ اس کاشکار کارتوس سے کرتے ہیں، اس کو ذبح کرنے کاموقع کم ہی ملتا ہے پھر اس کی اندر سے صفائی کیے بناء پکاتے ہیں، کھاتے وقت بعض نفیس الطبع زیادہ سے زیادہ اس کاپتہ اور دل نکا ل دیتے ہیں یہ سنا ہے کہ اس پرندے کو بغیر صفائی کے کھانے میں کوئی حرج نہیں یہ پرندہ مغرب سے کچھ مہینوں کے لیے آتا ہے، بہر حال اس کا شکار مخصوص دنوں میں ہو تا ہے بعد میں نظر نہیں آتا۔ اس کے کھانے سے متعلق بھی وضاحت چاہیئے۔اکرمک اللہ
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔حلال جانورکی اوجھڑی اور اس کی آنت کو صاف کرکے کھانا جائز ہے کیونکہ یہ جانور کی ان سات اشیاء میں داخل نہیں جنہیں حدیث میں حرام بتایا گیا ہے ۔لہٰذا یہ بھی اس کےگوشت کے حکم میں ہے اور حلال ہے۔
2۔ہماری تحقیق کے مطابق سوال میں مذکور پرندہ چڑیا کی ایک قسم ہے لہٰذا اس کو اگر شرعی طریقہ سے ذبح کیاجائے تو کھانا جائز ہے اوراگر ذبح نہ کیا جائے تو صر ف کارتوس کا مارا ہوا شکار کھانا جائز نہیں ۔ اور ذبح کرنے کی صورت میں بھی اگر اندر سے صا ف کیاجاسکتا ہو توصاف كرناضرورى ہےاور اگر مشکل ہو تو بغیر صاف کیے بھی کھا نا جائز ہے۔
فہم حدیث(3/352)میں ہے:عن مجاهد قال كره رسول الله ﷺمن الشاة سبعا : المرارة ،والمثانة ، والغدة ،والحيا ، والذكر ، والأنثيين ، والدم.(كتاب الآثار لمحمد)ترجمہ:(تابعی )مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں رسول ﷺ بکری کے (بلکہ کسی بھی حلال جانور کے)سات اعضاء کھانے کو ناجائز فرماتے تھے یعنی پتہ اور مثانہ اور غدود اور جانور کی شرمگاہ اور آلہ تناسل اور خصیے (یعنی کپورے) اور خون ۔
مجمع الأنہر (4/ 65)میں ہے:وفي الاختياروغيره الكرش،والكبد،والرئة،والفؤاد،والرأس،والأكارع،والأمعاء،والطحاللحم؛ لأنها تباع مع اللحم.فقہ الإسلامی وأدلتہ (4/2595)میں ہے:ويجوز بالإجماع أكل الأنعام (الإبل والبقر والغنم) لإباحتها بنص القرآن الكريم، كما يجوز أكل الطيور غير الجارحة كالحمام والبط والنعامة والأوز، والسمان، والقنبر، والزرزور، والقطا، والكروان، والبلبل وغير ذلك من العصافير.رد المحتار(10/69)میں ہے:قال قاضي خان: لا يحل صيد البندقة والحجر والمعراض والعصا وما أشبه ذلك وإن جرح؛ لأنه لا يخرق إلا أن يكون شيء من ذلك قد حدده وطوله كالسهم وأمكن أن يرمي به؛ فإن كان كذلك وخرقه بحده حل أكله .’’حروف عربی ‘‘ویب سائٹ پر ہے: الدخل :هو من الطيور الصادحة التي تمتلك صوتاً رائعاً بتغريدها العذب؛ حيث إنّ لهذا الطائر أصنافٌ وأشكالٌ كثيرة، كطائر دخل البساتين، والدخل المخطَّط، ودخل البحر الأحمر، ودخل الصحراء، والدخل الفيراني، والدخل الصرود، والدخل القبرصي، وغيرها الكثير من الأنواع.معلومات عامَّة عن طائر الدخل: يتغذَّى طائر الدخل بشكلٍ أساسي على الحشرات الصغيرة، كالديدان، والذباب، والجنادب، وأيضاً يتغذى على بعض أنواع الفواكه، كالتوت والتين، كما أنّه يمتلك صوتاً عذباً، وكذلك تمتلك بعض الأصناف منه أشكالاً جميلة، وأما بالنسبة لحجمه فهو لا يتعدَّى طوله أحد عشر سنتيمتراً. تبني طيور الدخل أعشاشها بين أغصان الأشجار المتوسطة، والشجيرات الصغيرة؛ حيث تضع الأنثى من ثلاث إلى خمس بيضات في شهر مارس- آذار من كلِّ سنة، كما أنّ أكثر أماكن تواجدها هي الغابات، وفي البساتين حيث يتم اصطيادها. طرق صيد الدخل تتعدَّد طرق صيد الدخل في وطننا العربي، ولأسباب مختلفة، فمن الصَّيادين من يصطاده من أجل طعمه اللذيذ، ومنهم من يصطاده من أجل صوته الجميل، ولكن في الغالب ما يتم اصطياده من أجل الأكل،يتم صيد طائر الدخل بالبندقية النارية ذات العيار الصغير، أو بواسطة البندقية ذات الضغط الهوائي (الخردق)، وذلك لصغر حجمها؛ فهي لا تحتاج إلى سلاحٍ قويِّ من أجل إسقاطها، كما أنّ عمليّة الصيد بالبندقية هدفها فقط لحم هذا الطائر.
رد المحتار (9/ 515)میں ہے:وفي معراج الدراية لو وجدت سمكة في حوصلة الطائر تؤكل وعند الشافعي لا تؤكل لأنه كالرجيع ورجيع الطائر عنده نجس وقلنا إنما يعتبر رجيعا إذا تغير وفي السمك الصغار التي تقلى من غير أن يشق جوفه فقال أصحابه لا يحل أكله لأن رجيعه نجس وعند سائر الأئمة يحل ا هـروضۃ الطالبين للنووی(2/ 508) میں ہے: وهل يحل أكل السمك الصغار إذا شويت ولم يشق جوفها ويخرج ما فيه ؟ فيه وجهان. وجه الجواز: عسر تتبعها، وعلى المسامحة بها جرى الاولون. قال الروياني: بهذا أفتي، ورجيعها طاهر عندي، وهو اختيار القفال.الشرح الكبير لابن قدامہ(11/ 45)میں ہے:يجوز أكل الجراد بما فيه وكذلك السمك يجوز ان يقلى من غير ان يشق جوفه وقال أصحاب الشافعي في السمك لا يجور لان رجيعه نجس ولنا عموم النص في اباحته وما ذكروه غير مسلم وان بلع انسان منه شيئا وهو حي كره لان فيه تعذيب الحيوان.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved