• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تنخواہیں اور ان کی ادائیگی کی تاریخ

استفتاء

-1            اب تک حکومت کی طرف سے کم از کم 13000روپے تنخواہ تھی۔اسلئے پی کمپنی میںکسی بھی ملازم کی تنخواہ اس سے کم نہیں تھی۔ جبکہ رواں سال (2016)کیلئے حکومت کی طرف سے کم از کم 14000روپے تنخواہ مقرر کی گئی ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے کمپنی کو نوٹیفکیشن ملتاہے تو اس وقت سے کمپنی کیلئے اس پر عمل کرنا ضروری ہوتاہے چونکہ اب اس مہینے کمپنی میںنوٹیفکیشن ملا ہے، اس لیئے آئندہ ماہ سے 14000روپے تنخواہ کردی جائے گی۔تنخواہ کی ادائیگی کے وقت گورنمنٹ قانون کے مطابق انکم ٹیکس کاٹ کر حکومت کو جمع کروایا جاتا ہے۔

-2            پی کمپنی کے ملازمین کی تنخواہیں ایڈمن اور HR والے مل کر طے کرتے ہیں اور انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس پوسٹ کے لیے کتنی تنخواہ ہونی چاہئے تاہم اس بات کا اہتمام نہیں ہوتا کہ پہلے مارکیٹ میں اس پوسٹ کی تنخواہیں معلوم کی جائیں پھر تنخواہ مقرر کی جائے بلکہ ایڈمن اور HR کومارکیٹ کا اندزہ ہوتا ہی ہے اسلئے وہ مشورہ کر کے فیصلہ کرتے ہیں۔

-3            کمپنی کی طرف سے تنخواہ کی ادائیگی کے سلسلے میں ہر مہینے کی 5 تاریخ طے کر دی گئی ہے۔ عموماً 5 تاریخ تک تنخواہیں ادا کر دی جاتی ہیں جب کہ بعض اوقات مجبوری کی وجہ سے اس سے تاخیر بھی ہو جاتی ہے اور اس صورت میں ملازمین کو تاخیر کی اطلاع کر دی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملازمین مطالبہ کرتے ہیں کہ وقت پر تنخواہ کیوں نہیں دی گئی۔

تنخواہ کے بارے میں کمپنی کی مذکورہ بالا پالیسی کا شرعاً کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ قانونی مجبوری کی وجہ سے تنخواہ کی ادائیگی کے وقت انکم ٹیکس کاٹ کر حکومت کو جمع کروانا جائز ہے۔

۲۔ ملازمین کی تنخواہ مقرر کرنے کا مذکورہ طریقہ کار شرعاً درست ہے۔ البتہ اس سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ مارکیٹ کے عرف کو بھی مد نظر رکھا جائے، تاکہ ملازم کی تنخواہ مارکیٹ عرف کے مطابق ہو، اس سے کم نہ ہو۔

۳۔            تنخواہ کی ادائیگی کے سلسلے میں مہینے کی ۵ تاریخ طے کرنا شرعاً درست ہے۔ لہٰذا پی کمپنی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مقررہ تاریخ پر ادائیگی کا اہتمام کرے۔ البتہ اگر کبھی کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے تنخواہ لیٹ ہو تو ملازمین کو پہلے اس بات کی اطلاع کر دی جائے، تاکہ موقع پر ملازمین کو پریشانی نہ ہو۔

(۱)         کما قال الله تبارک و تعاليٰ: (النساء: ۵۹)

يا ايها الذين اٰمنوا اطيعوا اللّٰه و اطيعوا الرسول و اولي الامر منکم۔

(۲)         صحيح مسلم: (باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية، حديث ۴۷۶۳) طبع دارالسلام۔

عن ابن عمر عن النبي ﷺ انه قال: ’’علي المرء المسلم السمع والطاعة فيما أحب وکره الإ أن يؤمر بمعصية فإن أمر بمعصية فلاسمع ولا طاعة۔‘‘

(۳)         صحيح مسلم (۴/۱۸۳۶، دار احياء التراث العربي)

قال: أنتم أعلم بأمر دنياکم۔

(۴) (سنن الترمذي باب ما ذکر في الصلح بين الناس، رقم: ۱۳۵۲)

’’المسلمون علي شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أوحلّ حراماً ‘‘  والله تعاليٰ اعلم بالصواب

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved