• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدالت میں پیشی کی فیس

استفتاء

میں عرصہ تقریبا 54 سال سے پیشہ وکالت سے منسلک ہوں اور اب کافی عرصہ سے صرف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پیش ہوتا ہوں۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں چارہ جوئی کرنے کا طریقہ کار یہ ہے :

ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں براہ راست اپیل دائر نہیں کی جاتی بلکہ پٹیشن دائر کی جاتی ہےجس کو پٹیشن برائے اجازت دائری اپیل کہتے ہیں۔ اس پٹیشن کو سپریم کورٹ کے 3 جج صاحبان کی بنچ یا کم از کم دو فاضل جج صاحبان سماعت کرتے ہیں۔ اگر پٹیشن کے وکیل ہائی کورٹ کےفیصلہ میں کوئی قانونی یا واقعاتی  نقص ثابت کردیتے ہیں تو اپیل کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ و گرنہ پٹیشن خارج کر دی جاتی ہے۔ او معاملہ ختم ۔

اس اپیل کی اجازت ملنے کے بعدفیس اپیل اور اپیل کی 8 عدد کاپیاں وغیرہ تیار کرکے  اور ان حکم کی باضابطہ نقل لگا کر اپیل دائر کر

دی جاتی ہے، جس کی سماعت اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ یہ اپیل دو سال بعد بھی لگ سکتی ہے اور چار سال بعد بھی اور اگر لاہور میں بھی سماعت ہو تو پھر  بھی نہ جانے کب لگے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب میرے پاس ہائی کورٹ کےفیصہ کے خلاف کوئی کیس آتا ہے تو میں ان سے اپیل تک کی فیس وصو نہیں کرتا حالانکہ وہ ادا کرنے کو تیار ہوتےہیں، میں ان سے یہی کہتاہوں کہ میں سالم فیس کیسے لے سکتاہوں۔ ہو سکتا ہے  کہ پٹیشن منظور نہ ہو، اس لیے آپ مجھے جائز فیس صرف پٹیشن کےفیصلہ تک ادا کردیں۔ اور اگر پٹیشن منظور ہوجائے تو پھر کوئی  اور وکیل کریں میں اپیل میں پیش نہیں ہوں گا۔ نہ جانے کب لگے۔ اس معاہدہ پر میں پٹیشن دائر کرتاہوں۔

مجھےکئی پٹیشن میں اللہ کے کرم سے اپیل دائر کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ حالانکہ عام طور پر 100 پٹیشن میں سے صرف 5 ۔ 7  میں ہی اجازت ملتی ہے۔ کیونکہ عام طور پر ہائی کورٹ کے فیصلے صحیح ہوتے ہیں اور اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ بہر حال اب میرے کلائنٹ کہتے ہیں کہ ہم اور وکیل نہیں کریں گے۔ اپیل کی پیروی آپ ہی نے کرنی ہےجب بھی لگے۔ موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو فیس کہیں ہم پیشگی ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ہم دوسرا وکیل ہرگز نہیں کریں گے۔ میں ان سے یہی کہتا ہوں کہ میں جب معاہدہ آپ کی پٹیشن کی پیروی فیصلہ کردی ہے اور اب جب معاہدہ اپیل کے لیے آپ کو دوسرا وکیل کرنا ہے اس کو فیس ادا کریں اور وہی بروز سماعت حاضر ہوگا۔ میری تو اب ضعیف العمری ہے نہ جانے کب اپیل سماعت کے لیے لگے دو سال بعد یا چار سال بعد۔ مجھے اب اپیل کی پیروی کے لیے ایک معقول رقم پیشگی ادا کردیں اور جب اپیل لگے تو معلوم ہو کہ وکیل صاحب تو دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں اور فیس ہضم کر گئے ہیں اور پھر  مجبوراً نئی فیس  دوسرے وکیل کو ادا کرنی پڑے گی۔

کلائنٹ یہ کہتےہیں کہ موت  اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے آپ کی نیت تو پیروی کرنے  کی اور پیش ہونے کی ہے اگر اللہ تعالیٰ  وکیل کو بلالے تو اس صورت میں تو اس نے کوئی عہد شکنی نہیں کی۔ جبکہ ہم بخوشی آپ کو فیس پیش ادا کر رہے ہیں۔ اور اگر شرعی طور پر آپ کو یہ ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے پوچھیں گے کہ تو نے رقم تو پہلے ہی جیب میں ڈال لی تھی مگر اپیل میں بحث نہیں کی  تو کیا جواب ہوگا؟ توصاحب ہم تو بخوشی آپ کو فیس ادا کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کو زیادہ ہی فکر ہے تو وفات کی صورت میں ہم معاف کر دیں گے۔ وعدہ کرتےہیں۔

تو کیا  ایسی  صورت میں ان سے پیشگی فیس لے سکتاہوں؟ مجھے اب بھی پریشانی لاحق ہے سب وکیل یہی کہتےہیں کہ آپ کو پیشگی فیس لینی چاہیے ( مگر قانونی طور پر تو ٹھیک ہے ) شرعی مسئلہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا باہمی رضامندی سے بلا جبر و اکراہ  بخوشی معاہدہ کے مطابق عمل کرنے میں کوئی  دینی قباحت تو نہیں؟ اور کیا پھر بھی اس صورت میں وصولی قابل مواخذہ ہوگی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ہر پیشی کی فیس پیشی ہونے پر وصول کریں۔

2۔ پیشگی فیس وصول کرلیں لیکن  ساتھ میں وصیت نامہ کے طور پر لکھیں کہ فلاں پارٹی سےاتنی فیس وصول کی ہے جو امانت ہے۔ اور آپ کی وفات کی صورت میں واپس کر دی جائے۔ اگر درمیان میں  کوئی کام ہوتو کل میں سے اتنی رقم منہا  کر کے باقی کے بارے میں واپسی کی وصیت لکھی جائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved