- فتوی نمبر: 4-150
- تاریخ: 19 جون 2011
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
میرا نام ڈاکٹر***ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ میں اور میرے دوست چین میں ایک ریسٹورنٹ کھولنا چاہتے ہیں۔ چونکہ چین ایک غیر اسلامی ملک ہے جہاں پر کھانے پینے کے ہوٹلوں میں شراب کا بکناعام ہے اور چین کے لوگ شراب کے بغیر کھانا نہیں کھاتے۔ میں اور میرے دوست جن کا تعلق بھی پاکستان سے ہے اور مسلمان بھی ہیں۔ ہم شراب نہیں بیچنا چاہتے لیکن چین میں شراب کے بنا ہوٹلز کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ ہمارا ایک دوست ہے جو کہ چین کا باشندہ بھی ہے اور غیر مسلم بھی۔ وہ ہمارے ساتھ سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ اور کھانے کی اشیاء کے علاوہ شراب کا لین دین کا وہ دعویدار ہے۔ ہم مسلمان دوستوں کا شراب کی خرید و فروخت اور نہ اس کے نفع نقصان سے کوئی تعلق نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہوٹل کی سرمایہ کاری میں وہ ہمارے ساتھ سرمایہ کاری کرے گا۔ مثلاً دس لاکھ میں سے پانچ لاکھ وہ ڈالے گا اور پانچ لاکھ ہم ۔ اس سے صرف فرنیچر، سبزی، گوشت، اے سی، فریج وغیرہ وغیرہ آئےگا۔ لیکن شراب اس میں نہیں ہے۔ شراب کی سرمایہ کاری چاہے پچاس ہزار ہے یا دو لاکھ وہ اس کے علاوہ چین کا باشندہ کرے گا۔ اس میں ہمارا کوئی بھی پیسہ نہیں شامل ہوگا ہم مسلمان دوستوں کا مقصد ہوٹل کا کاروبار کرنا ہے نہ کہ شراب کا۔ لیکن چین میں شراب کے بنا ہوٹل کا کاروبار چل نہیں سکتا۔ حتے کہ آپ KFC یا Mcdonalds جیسا کوئی ہوٹل نہ کھولیں۔ جن کی سرمایہ کاری کروڑوں میں ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر آپ بتائیں کہ ایسا کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ جس طرح ہمارے پاکستان میں آپ کا جائز کام بھی بنا روپے نہیں ہو پاتا اور اس صورت میں علماء کرام نے اس کو جائز بھی قرار نہیں دیا، لیکن ٹھیک قرار دیا ہے، کیونکہ ادھر کا نظام ہی ایسا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کا ذکر کردہ طریقہ درست نہیں ہے۔ جائز طریقہ یہ ہے کہ اگر جگہ آپ کی ہے یا آپ نے کرایہ پر لی ہے تو آپ اس کے ایک حصہ میں اپنا ہوٹل کا کام کریں۔ اور غیر مسلم چینی باشندے کو اپنی اس جگہ کا ایک حصہ کرایہ پر دے دیں۔ جہاں وہ اپنا کاؤنٹر اور سامان رکھے وہ شخص اپنے کاروبار میں خود مختار ہو اور کسی معاون کی ضرورت ہو تو وہ اپنا معاون خود اجرت پر لے۔ آپ لوگ اس کے ساتھ نہ تو شراکت رکھیں اور نہ ہی شراب Serve کریں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved