• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گاڑی کرایہ پر دینا

استفتاء

میں ایک بیوہ عورت ہوں۔ چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ آمدن کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ میرے پاس کچھ رقم ہے۔ موجودہ دور میں جو حالات ہیں ان میں کسی کو رقم دینے کا حوصلہ نہیں اور نہ ہی اعتبار۔ میرے بھائی نے مشورہ دیا ہے کہ ایک گاڑی خرید لو اور ایک فرم جو کہ کرائے پر گاڑی چلاتے ہیں ان کو دے دو۔ وہ ہر مہینہ کے بعد جو بچت ہوگی، اپنے تمام اخراجات، و دیگر ( جوکہ میری گاڑی پر آئیں گے ) نکال کر دیں  گے جو کہ میرے لیے ہوگی۔ جو فرم گاڑی لے کر کرایہ پر چلائیں گے وہ میری گاڑی کو انشورنس اور  ٹریکر بھی لگوائیں گے۔ ( حادثات یا دیگر حالات کی وجہ سے ) اس کے بغیر وہ گاڑی نہیں لیتے۔

پوچھنا یہ ہے کہ آیا یہ معاملہ شرعی طور پر جائز ہے؟ بیوہ عورت ہوں اور اس کا روبار میں مجھے معقول آمدن اور حفاظت بھی معلوم ہوتی ہے۔

نوٹ: (تمام اخراجات نکالنے کے بعد نفع کی تقسیم اس تناسب سے ہوگی کہ 65 فیصد گاڑی کا مالک لے گا اور 35 فیصد کمپنی لے گی۔ کمپنی انشورنس کے تمام  اخراجات اسی 35 فیصد سے ادا کرےگی۔ یعنی انشورنس کی ذمہ داری اور خرچہ کمپنی پر ہے۔

گاڑی دینے  کی دوسری صورت یہ ہو سکتی   ہے کہ ہم مقدار کرائے مثلاً 20 ہزار روپے ماہانہ طے کر لیں۔ نفع سب کمپنی کا ہو۔ انشورنس اس صورت میں بھی کمپنی کرائے گی۔ اور گاڑی کی مرمت کے تمام اخراجات کمپنی کے ذمے ہونگے۔ بلکہ کمپنی جیسی گاڑی لے ویسی ہی حالت میں واپس کرے گی، اور کمپنی ہمارے خیال میں  قابل اعتماد بھی ہے نیز تمام باتوں سے متعلق لکھت پڑھت بھی ہوگی۔ مذکورہ دونوں طریقوں میں سےکونسا طریقہ درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

گاڑی کو کرایہ پر دینے کی دوسری صورت درست ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved