• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مالی جرمانہ

استفتاء

موجودہ زمانہ میں تقریباً ہر ادارہ/ کمپنی/ اسکول وغیرہ میں معاہدہ ملازمت (Employment contract) میں ایک شق لازمی  طور پر ہوتی ہے وہ یہ کہ ’’ فریقین میں سے ہر ایک کو لازم ہے کہ وہ معاہدہ ختم کرنے، ملازمت چھوڑنے سے ایک ماہ پہلے اطلاع دیدے ۔ ادارہ، کمپنی، اسکول وغیرہ نے اطلاع دیے بغیر نکال دیا تو وہ ایک ماہ کی اضافی تنخواہ ملازم کو دیں گے اور اگر ملازم نے ایک ماہ پہلے بتائے بغیر ملازمت چھوڑ دی تو اسے ایک ماہ کی تنخواہ کمپنی کو دینی ہوگی۔ ‘‘ان دونوں شقوں کا شرعاً کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ دونوں فریقوں کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں بغیر اطلاع فریق ثانی ملازمت ختم نہ کردے جس کی بنا پر دونوں کو پریشانی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔ اس نوٹس کی وجہ سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ادارہ اس ایک ماہ ( بعض جگہوں میں ملازمت کی سنگین نوعیت یا اہمیت کی وجہ سے ایک ماہ سے زیادہ کی بھی شرط ہوتی ہے، دو ماہ یا تین ماہ پہلے اطلاع دینی ہوگی) نیا ملازم تلاش کر کے اسے کسی درجہ میں پہلے والے کے مطابق کام سکھا کر اسی اسٹیج پر لاسکتی ہے، اگر ملازم بغیر بتائے چلا جائے تو ادارہ، کمپنی، اسکول وغیرہ کو پریشانی اٹھانی پڑسکتی ہے نقصان بھی ہوسکتا ہے، اس لیے ملازم پر یہ شرط رکھی جاتی ہے۔ چونکہ ایک ماہ کی تنخواہ جاسکتی ہے اس لیے ملازم معاہد کے مطابق نوٹس دیدیتا ہے۔ اسی طرح ملازم نوٹس ملنے پر کوئی نئی نوکری تلاش کرسکتا ہے۔ نوٹس دیے بغیر نکالا جائے تو اسے نقصان پہنچ سکتا ہے مثلاً گھریلو اخراجات کیسے پورے ہوں گے، اس واسطے یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ نوٹس نہ دینے کی صورت میں ایک ماہ کی تنخواہ دینی ہوگی۔ ان دونوں شقوں کا شرعی کیا حکم ہے؟

بعض علماء فرماتے ہیں کہ ملازم سے ایک ماہ کی تنخواہ لینا جائز نہیں کیونکہ یہ تعزیر مالی ہے یعنی جرمانہ ہے، اس کی اسلام میں اجازت نہیں۔ اس کے بجائے ادارہ، کمپنی، اسکول وغیرہ ملازم سے یہ التزام کروائے کہ وہ اطلاع دے گا ورنہ خود یا اپنے نائب کے ذریعہ کام مکمل کرے گا، یا ادارہ صرف حقیقی نقصان وصول کرسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کل دیانت و امانت کا حل تو آپ کے بھی علم میں ہے۔ بہت کم ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس وعدہ کو پورا کریں گے، موجودہ دور میں ادارہ، کمپنی، اسکول وغیرہ کے کمپیٹیٹرز کی طرف سے ایسی ایسی آسائش و سہولیات کی آفر آتی ہیں کہ ملازم فوراً حالیہ ملازمت کو چھوڑ دیتے ہیں، پھر معلوم نہیں کہ وہ نائب ادارہ، کمپنی، اسکول وغیرہ کے اپنے معیا رکے مطابق ہو یا نہیں، بلکہ جب اس ملازم نے خود وعدہ پورا نہیں کیا، معاہدہ کے مطابق اطلاع نہیں دی۔ اب وہ نائب کیا فراہم کرے گا؟ اب اگر کسی بڑے اسکول کا کوئی اہم ٹیچر چلا جائے تو نہ صرف اسکول کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا بلکہ طلبہ کا بھی معتدبہ نقصان ہوگا، اسی طرح کسی کمپنی یا ادارہ کا کوئی اہم آدمی اچانک ملازمت چھوڑ دے تو اس سے کمپنی کے اہم اہم کام متاثر ہوجاتے ہیں، مزید یہ کہ اس لیول کا آدمی اتنی جلد ملنا تقریباً نا ممکن ہے (اسی وجہ سے اس درجہ کے ملازمین کے ساتھ ایک ماہ کا نہیں بلکہ تین یا چھ ماہ تک کی بھی شرط لگائی جاتی ہے)۔ آخر جب ادارہ اور ملازم دونوں اس معاہدہ پر راضی ہیں تو اس کی ممانعت کیوں ہے؟ آخر دنیا کی تقریباً تمام ہی اسلامی حکومتیں مجرموں سے جرمانے وصول کرتی ہیں، ان کی کیا حیثیت ہے؟ پھر اگر اس شق کو اگر بالکلیہ نکال دیا جائے تو ادارہ، کمپنی اسکول جب چاہیں معاہدہ ختم کردیں۔ اب ملازم کیا کرے؟ یا ملازم جب چاہے کام کرنے سے منع کردے اور نہ آئے۔ اب کمپنی وغیرہ کا نقصان اگر ملازم سے یہ معاہدہ کیا جائے کہ اس کے بغیر نوٹس/ اطلاع دیے جانے کی صورت میں ادارہ/ کمپنی/ اسکول وغیرہ کو جو حقیقی نقصان ہوگا وہ ملازم سے وصول کیا جائے گا، تو اس میں بھی چند پریشانیاں ہیں۔ مثلاً:

ملازم کا ایسے معاہدہ پر راضی ہونا مشکل ہے کیونکہ وہ کسی درجہ میں ہی پوسیبلٹی ہے کہ ملازم کو کبھی اچانک ملازمت ختم کرنی پڑ جائے اس صورت میں معلوم نہیں کہ کیا نقصان ہو جائے کہیں وہ اس کی تنخواہ سے بہت ہی زیادہ نہ ہو۔

نقصان کا تخمینہ لگانا الگ مشکل ہے۔ بلکہ اس کے لیے الگ سے کچھ افراد کو ملازم رکھنا پڑے گا کہ کتنا نقصان ہوا۔ نقصان سے ملازم کا اتفاق کرنا بھی کوئی ضروری نہیں، بلکہ یہ ایک اور پریشانی ہوسکتی ہے کہ ملازم کو کیسے یقین ہو کہ یہ حقیقی نقصان ہے۔

اگر عدالت تک معاملہ جائے ( بظاہر یہی ہوگا) تو عدالت کے اخراجات، اس کا دورانیہ، پھر نقصان کو عدالت میں ثابت کرنا وغیرہ ایسی مشکلات ہیں جو بالکل ظاہر ہیں۔

عدلیہ کا حال سب پر واضح ہے کہ وہاں سے معاملات کا تصفیہ ہونے میں کتنا وقت لگ جاتا ہے۔

ان زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ اس اہم مسئلہ کا کیا حل ہو؟ ضرورت بہت شدید ہے، اگر اس کو تعزیر مالی جرمانہ مانتے ہوئے اس شق کو ختم کردیا جائے تو ملازمین پر کوئی روک نہیں رہے گی۔ وہ جب چاہیں گے چھوڑ دیں گے، نقصان کا معاملہ بھی مشکل ہے جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا، صرف وعدہ ہو تو عوام الناس کی دیانت و امانت کے احوال سب پر واضح ہیں۔ بلکہ علماء کرام بھی اس پر پریشان ہیں اسی وجہ سے بیانات میں تقویٰ، دیانت پر زور دیتے ہیں۔ لہذا حضرات فقہاء کرام ہمیں اس کا واقعی قابل عمل حل بتائیں تاکہ ہم لوگ شریعت کی روشنی میں اپنے کاروبار، معاش کو جاری رکھ سکیں۔ کیا اس مسئلہ میں حنفی مسلک کے علاوہ کسی دوسرے مسلک پر عمل نہیں کرسکتے؟ کیا تعزیر مالی جرمانہ صرف فقہ حنفی میں منع ہے یا سب شافعی، حنبلی، مالکی کا یہی مذہب ہے؟ کیا اس ضرورت کی وجہ سے ان میں سے کسی اور کا مسلک اختیار نہیں کیاجاسکتا؟ اس مسئلہ کا حل واضح فرما دیں اللہ آپ سے راضی ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک تعزیر مال جائز ہے۔ جس کی صورت ایک روایت کے مطابق یہ ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے سے جرمانہ وصول کیا جائے لیکن جب آدمی صحیح راہ پر لگ جائے تو اس کو بالآخر جرمانے کی رقم واپس کردی جائے۔

سوال میں مذکور صورت کا معاہدہ کرنا جائز ہے اور معاہدہ کے فریقین کو اس کی پابندی کرنا ضروری ہے کیونکہ حدیث ہے کہ المسلمون عند شروطهم۔ البتہ اس کی صورت یہ بنائی جائے کہ ملازم کی تنخواہ میں سے تھوڑی تھوڑی کٹوتی کر کے ایک ماہ کی تنخواہ کے بقدر کمپنی یا ادارہ روک لے اور ملازم و اجیر سے یہ لکھوا لے کہ فوری طور پر ملازمت چھوڑنے کی صورت میں اس کی روکی ہوئی رقم ادارہ اجیر کی طرف سے صدقہ کردے۔ رہی وہ صورت جب ادارہ فوری طور پر اجیر کو فارغ کردے تو ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر رقم وہ اجیر کو دے تو یہ ادارے کی طرف سے تبرع شمار کیا جاسکتا ہے۔

کام کے پیش نظر مدت ایک ماہ سے کم و بیش بھی ہوسکتی ہے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved