- فتوی نمبر: 2-149
- تاریخ: 13 نومبر 2008
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
**نے**سے پیسے لینے تھے ، اس کو قرض کے طور پر دے رکھے تھے مبلغ/60000 روپے ، لیکن ** اول تو مفلس ہوگیا پھر اب اس کے حالات تو قدرے بہترہیں لیکن پیسے کم ازکم یک مشت ملنے کا امکان نہیں ہے ، ایسی صورت میں**یہ چاہتاہے کہ میں یہ پیسے کسی مدرسے کو صدقہ دے دیتاہوں کہ وہ وصول کرلیں ۔ مسئولہ امر یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں وہ پیسے مدرسے کے استحقاق میں چلے گئے یانہیں؟ اور اگر چلے گئے توان کے لئے وصولیابی کا خرچہ کس کے ذمے ہے ،**کے ذمے یا مدرسہ کے ذمے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر** نے اہل مدرسہ کوان پیسوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دیدی ہے تو جتنی جتنی رقم پر اہل مدرسہ قبضہ کرتے چلے جائیں گے، اتنی رقم صدقہ ہوتی چلی جائے گی۔اہل مدرسہ کے قبضہ کرنے سے پہلے پہلے اس رقم کا مالک** ہی ہوگا۔
الصدقة كالهبة لا تصح غيرمقبوضة /شامي ص: 605 ج :8
نيز دوسری جگہ لکھتے ہیں:
ولووهب ديناًله علی رجل وأمره أن يقبضه فقبضه جازت الهبة استحساناً فيصير قابضاًبحكم النيابة ثم يصير قابضاً لنفسه بحكم الهبة وإن لم يأذن بالقبض لم یجز/شامي 8/568
وفي تقريرات الرافعي : لو تصدق بالدين الذي علی فلان علی زيد بنية الزكاة وأمره بقبضه فقبضه أجزأه (الاشباه)/تقريرات رافعي 8/604
وصولیابی کا خرچہ اہل مدرسہ کے ذمہ ہے ، کیونکہ جو وصول ہوجائے گا وہ اہل مدرسہ کا حق ہوگا۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved