- فتوی نمبر: 3-353
- تاریخ: 01 جنوری 2011
- عنوانات: مالی معاملات > امانت و ودیعت
استفتاء
1۔ گذارش ہے کہ ہمارے پاس ایک پانچ مرلے کا مکان ہے۔ جو ہمارے والد صاحب نے ہم تین بھائیوں کے نام کیا تھا۔ پھر والد صاحب 9 نومبر 1998 کو فوت ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ہمارے بڑے بھائی بھی 21 اکتوبر 2007 میں فوت ہو گئے تھے۔ اور اب 9 اگست 2010 کو ہماری والدہ بھی فوت ہوگئی ہیں۔
ہم تین بھائی اور چار بہنیں تھے، جب والد صاحب فوت ہوئے۔ ایک بڑی بہن بھی 2006 میں فو چکی ہیں۔ اب ہم دو بھائی اور تین بہنیں زندہ ہیں۔
ہمارے والد صاحب گورنمنٹ ملازم تھے۔ اور اس کے علاوہ ہمارے والدصاحب اور بڑے بھائی اور ہم سب نہن بھائی مل جل کر موم بتی کا کاروبار کرتے تھے۔ اس کاروبار کی کمائی ہمارے والدصاحب اور بڑے بھائی نے ایک پانچ مرلے کا مکان خریدا تھا۔ وہ تین بھائیوں کے نام کیا گیا تھا۔ بہنوں کے نام نہیں کیا گیا تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ سے بھی ہم دونوں بھائیوں نے بار بار پوچھا تھا کہ اس میں بہنوں کا حصہ ہے یا نہیں؟ کیونکہ یہ ہمارے تین بھائیوں کےنام کر دیا گیا تھا۔ تو والدہ نے یہی جواب دیا کہ یہ تین بھائیوں ہی کے نام کیا گیا تھا۔ اور تم تینوں بھائیوں کا ہی حصہ ہے۔ بہنوں کو توجہیز کی صورت میں انہیں دے دیا جاتا ہے۔ بہنوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔مزید والدہ نے کہا کہ میں نے بھی تمہارے والد سے ایسا کرنے کے لیے کہا تھا۔
اوپر ہم نے تفصیل دی ہے۔ اب آپ سے مسئلہ پوچھنا ہے کہ کیا ایسی صورت میں بہنوں کا حصہ مکان میں بتنا ہے یا نہیں؟ جبکہ ایک بہن فوت بھی ہوچکی ہیں تو کیا ان کے وارثان اولاد وغیرہ کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اور بنتا ہے تو کتنا کتنا؟ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ بیان کریں۔ اور فتویٰ صادر فرمائے۔
2۔ دوسرا مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ کیا اس طرح تین بھائیوں کے نام تو والد صاحب نے مکان کیا لیکن 4 بہنوں کےنام مکان نہیں کیا۔ تو کیا اللہ ہاں والد صاحب سے اس بارے میں پوچھ ہو گی یا نہیں؟ یا والد صاحب کو اختیار ہے ایسا کرنے کا؟ اور اس کا مواخذہ نہیں ہوگا۔
3۔ مزید یہ پوچھنا ہے کہ کیا اس معاملے میں ہم دونوں بھائی تو گناہ گار نہیں ہوں گے؟
4۔ تیسرے بڑے بھائی جو فوت ہو چکے ہیں، انہوں نے ایک بیوہ اور تین بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں اپنے بعد۔ گذارش ہے کہ ان کی اولاد کا کتنا کتنا حصہ انہیں دینا ہم پر دینا لازم ہے؟
نوٹ: والد نے مکان خریدتے وقت تین بیٹوں کے نام مکان کی رجسٹر کروائی۔ خریدنے کے بعد والدین بیٹیاں اور بیٹے سب اس گھر میں اکٹھے رہنے لگے۔ والد نے مکان تقسیم کر کے الگ الگ کرکے بیٹوں کو حصہ نہیں دیا۔
وضاحت: ہماری بڑی بہن جو کہ انتقال فرما چکی ہیں انہوں نے پسماندگان میں اپنے خاوند، پانچ بیٹے اور دو بیٹوں کو چھوڑا۔ نیز ہماری والدہ کے والدین میں سے بھی کوئی حیات نہیں ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
رجسٹری میں تملیک کے بغیر کسی دوسرے کا نام لکھوانا چونکہ معروف ہے ، اس لیے اس کو ہبہ کا قرینہ نہیں بنا سکتے۔
غرض جائیداد باپ کی ملکیت اور مرنے کے بعد ان کا ترکہ رہی جس میں ان کےتمام وارثان شرعی حصوں کے مطابق شریک ہوں گے۔
جو بہنیں اپنا حصہ خوشی سے دینا چاہیں وہ ہدیہ کر سکتی ہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved