• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شریک کو ہبہ کرنا

استفتاء

ہمارے دادا مرحوم کی ایک مربع کے قریب زمین تھی۔ ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں اس وقت زندہ تھیں۔ دادا کی جائیداد سب کے نام اپنے اپنے حصوں کے مطابق پٹوار خانے کے ذریعے منتقل ہوگئی۔ اس کے بعد آج کے زمانے کے دستور کے مطابق بہنوں نے اپنا حصہ وصول نہیں کیا۔ بلکہ زمین میں بننے والا اپنا حصہ اپنا  بھائیوں کے نام ہبہ نامہ سے منتقل کروا دیا اور کسی قسم کا معاوضہ نہیں  لیا۔ ایک بہن نے ایک بھائی کے نام نہیں کروا یا تھا بلکہ اس سے لینے کا کہا اور اب تک بھی منتقل نہیں کروایا۔

واضح  رہے کہ مذکورہ جائیداد میں بھی تک صرف بہنوں کا نام اور حصہ تھا ان کو علیحدہ سے کر کے تقسیم اور قبضہ نہیں کروایا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا بہنوں کا اس طریقے سے اپنا حصہ منتقل کروانا یا بخشنا معتبر ہے یا نہیں؟ اور کیا بہنیں اپنے اس حصے سے مکمل طور سے عاری ہوچکی ہیں۔ اور کیا خصوصا ہمارے حصے میں جو اس طریقے سے زمین آتی ہے۔ اسے ہم استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟

ایک مولانا صاحب یہ فرما رہے تھے کہ اس طرح بخشنا جائز  اور معتبر نہیں ہوتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے جائیداد تقسیم کرو اور پھر ان کے قبضے میں دو پھر جو چاہیں کریں۔ براہ کرم میری اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں۔ کیا ہم کسی کا ناجائز حصہ تو نہیں کھا رہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بہنوں کا بھائیوں کو اس طرح ہبہ کرنا اگر چہ ہبتہ المشاع ہے جو کہ فاسد ہے۔ لیکن ایک روایت جس پر بعض علماء نے فتویٰ بھی دیا ہے یہ ہے کہ ہبتہ المشاع اس وقت فاسد ہوتا ہے جب اجنبی کو کیا جائے لیکن شریک جائیداد کو ہبہ بدون تقسیم بھی صحیح ہے۔ لہذا مذکور صورت میں ہبہ درست ہے۔

لا تتم الهبة بالقبض فيما يقسم و لو وهبه لشريكه أو لأجنبي ………. و في الصيرفية عن العتابي و قيل يجوز لشريكه و هو المختار.( در مختار: 8/ 576 )

امداد الاحکام میں  ہے:

” غالباً آج کل تقسیم جائیداد میں جس قدر خرچ اور پریشانی ہوتی ہے وہ مجبوری اور دشواری کی حد میں داخل ہے س لیے ۔۔ اگر اس روایت پر عمل کر کے شریک کے لیے ہبہ دون تقسیم کے صحیح کہا جائے تو گنجائش ہے۔ ( 4/ 38 ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved