• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک سے زائد بچوں کو ہبہ کیا گیا مکان کا ترکہ میں شمار

استفتاء

میرے والد مرحوم نے اپنی زندگی میں ایک مکان تین منزلہ جس کے نیچے دکانیں ہم تین بھائیوں**    **** کو دے دیا تھا۔ اس مکان کے نیچے جو دکانیں ہیں وہ والد صاحب نے ہم تین بھائیوں کی مشترکہ رقم سے خریدیں اور وہ بھی ہم تین بھائیوں کو دے دیں۔ ایک اور دکان جو ایک دوسری سڑک پر ہے وہ بھی والد صاحب کی تھی اس میں ہم تین بھائی***** کام کرتے رہے۔ اس دکان کا قبضہ بھی والد صاحب نے ہمیں اپنی زندگی میں دے دیا۔ اس کی تین چابیاں تین بھائیوں کو دے دیں۔ والد صاحب نے ہمیں کہا کہ یہ دکان بھی آپ تین بھائیوں کی ہے آپ جو فیصلہ کرلیں کہ اب کل تین دکانوں میں سے کون کونسی دکان کون لے گا؟ اسی طرح گھر بھی آپ تینوں بھائیوں کو دے دیا اور کہا جب کبھی اس کو بیچو تو کچھ بہنوں کو بھی دے دینا۔ یہ تین بھائی چھوٹے ہیں دو بھائی ان سے بڑے ہیں**او**۔ والد صاحب نے ان کو کراچی میں ایک دکان لے کر دی تھی دونوں بھائی اس میں کام کرتے رہے۔ پھر سعودی عرب چلے گئے۔ دونوں نے کراچی میں گھر لیا۔ 35 سال پہل***نے گھر 45000 کا لیا اور 50000 روپے تعمیر کے لیے ایک صاحب سے لیے جس کا قرضہ ہم نے والد صاحب کے ساتھ مل کر *****نے اتارا۔ **بھائی زندگی میں یہ کہتے تھے اباجی آپ تینوں بھائیوں کو گھر اور دکانیں دے دیں ہمیں حصہ نہیں چاہیے اور ان کے بیٹے نے بھی فون پر کہا کہ چاچا ہمیں حصہ نہیں چاہیے۔ اسی طرح** بھائی بھی کہتے تھے کہ مجھے حصہ نہیں چاہیے آپ تینوں کو دے دیں۔ اسی طرح وہ دونوں اپنے حق سے دستبردار ہوگئے تھے۔**بھائی کی فیملی سعودی عرب میں موجود ہے۔ **بھائی کا انتقال ہوگیا والد کی زندگی میں۔

ہم دس بہن بھائی ہیں ایک بہن سب سے چھوٹی سے بڑی کو ایک مکان دلوایا والد نے۔ اور سب سے چھوٹی بہن کے خاوند کو جہاں وہ کام کرتے تھے ان کے مالک کو خط لکھا کہ ان کے پاس اپنا گھر نہیں ان کو رہنے کے لیے گھر دے دیں۔ دکان کے مالک نے ان کو مکان دے دیا۔ اسی طرح ایک اور بہن کے شوہر بھی اس دکان میں کام کرتے تھے ان کو بھی مکان دے دیا۔

اب ** اور ** دونوں والد صاحب کا گھر چھوڑ کر چلے گئے چالیس سال پہلے اور اپنا اپنا گھر بنا لیا اور ہم تین بھائی والد صاحب کے گھر کو بنیاد سے لے کر تین منزلہ مکمل تیار کیا اور دو دکانوں کو لینٹر اور اوپر کمرے کے لینٹر تین منزلہ تک مکمل تیار کیا اس میں اور کسی بہن بھائی نے کوئی رقم نہیں لگائی۔

ہم تین بھائیوں نے جو کمایا والدین، گھر اور دکان پر لگایا۔ ہم تین بھائی اپنے والد سے کہتے تھے کہ اباجان یہ مکان تو آپ کے نام ہے اس میں جو تعمیر کرائی ہے کل کو اگر کسی نے کہا کہ یہ مکان تو آپ کے نام نہیں یہ تو والد کے نام ہے تو ہم کیا جواب دیں گے؟ والد صاحب نے ہمیں حوصلہ دیا اور کہا یہ مکان آپ تین بھائی***** کا ہے۔ اس کو بیچنا چاہو تو پھر بیچ کر بہنوں کو بھی کچھ دے دینا۔ والد صاحب کے فوت ہونے پر سب بہن بھائی جمع تھے ہم تینوں نے کہا کہ کیا کرنا ہے اس کو بیچنا ہے یا پھر والد کے کہنے کے مطابق چلنا ہے؟ سب نے مل کر بولا آپ تین بھائی اس میں رہیں۔ والد کی مرضی تھی کہ ان تینوں کو اس مکان میں رہنے دیں یہ مکان اور دکانیں میں نے ان کو دے دیں۔ سب نے کہا کہ ہم سب والد کی رضامندی پر راضی ہیں۔ اور یہ*** کی ہیں۔ اب ہم تین بھائیوں نے والد کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنا ہے والد صاحب نے سب بہنوں اور بھائیوں اور رشتہ دار، محلہ دار، اور تبلیغی بھائیوں کے سامنے بھی، پڑوسیوں سے بھی فرمایا کہ تین دکانیں تین بھائیوں کی ہیں، کونسی دکان  کون لے گا یہ فیصلہ خود کریں اور جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوتا کہ کونسی دکان کون لے گا جب تک تینوں بھائی مل کر کام کریں۔ تینوں دکانوں میں جو سامان اجتماعی ہے اس کو بھی آپ تینوں بھائی مل کر استعمال کریں اور ہم تینوں بھائی استعمال کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جو دکانیں اور گھر والد صاحب ہمیں اپنی زندگی میں دے گئے تھے کیا ہم تین بھائی اس کے مالک ہیں یا والد صاحب کے ترکہ میں شمار ہوں گی۔ انہوں نے اپنی اولاد کے اپنے اپنے حالات کے مطابق یہ جائیداد عطیہ دی تھی۔ اور ہم تینوں بھائیوں کو انہوں نے اس مکان کا اور دکانوں کا قبضہ بھی دے دیا تھا۔ بالخصوص والد صاحب کے جنازے کے وقت سب بہن بھائیوں نے والد صاحب کے اس عمل سے اتفاق کرلیا تھا اور انہوں نے جو کہا کہ جب بیچو تو بہنوں کو بھی کچھ دے دینا، اسے ہماری مرضی پر چھوڑا۔ یہ نہیں کہا کہ اسے ترکہ کے طور پر تقسیم کرنا۔ اس سے بھی ہم یہی سمجھے کہ اگر کبھی بیچو تو کچھ رقم بہنوں کو بھی دے دینا۔ وہ ان کو دینا ان کی امداد ہوگی وراثت کے طور پر نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دکانیں اور گھر تینوں بھائیوں کا ہے ان کو ترکہ میں شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ والد کی طرف سے کیا گیا ہبہ معتبر ہے۔

و لو وهب اثنان داراً لواحد صح …. لا عكسه و هو أن يهب واحد من اثنين كبيرين و لم يبين نصيب كل واحد عند أبي حنيفة رحمه الله لأنه هبة النصف من كل واحد منهما بدليل أنه لو قبل أحدهما فيما لا يقسم صحت في حصته دون الآخر فعلم أنها عقدان بخلاف البيع فإنه لو قبل أحدهما فإنه لا يصح لأنه عقد واحد و قالا يجوز نظراً إلى أنه عقد واحد فلا شيوع. ( البحر الرائق: 7/ 289)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved