- فتوی نمبر: 2-169
- تاریخ: 01 دسمبر 2008
- عنوانات: حظر و اباحت > علاج و معالجہ > منتقل شدہ فی حظر و اباحت
استفتاء
بندہ کے پاس چھ ماہ پہلے ایک مریض بچہ/بچی لائی گئی ۔عمر تقریباً 6سال تھی ۔ اس کو (CP) بیماری تھی ۔ اور دن میں دو تین بار دورے بھی پڑتے تھے۔ بچی صاحب فراش تھی۔ اور پیشاب پاخانے کی خبر نہ ہوتی تھی۔ اس کے والدین پریشان تھے۔ اور میرے پاس لائے کہ اس کو زہر کا ٹیکہ لگا کر قتل کردوں۔مجھ کو اس بارے اسلامی احکامات کی اطلاع تو نہیں تھی لیکن الحمدللہ ان کے اصرار کے باوجود بندہ نے ایسا کام کرنے سے انکار کردیا۔ گذشتہ ماہ بچی کے دادا سے ملاقات ہوئی تو میں نے مريضہ کا حال دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ہم نے کسی دوسرے(ڈاکٹر یا عطائی ) سے زہر کا ٹیکہ لگوا کر اس تکلیف سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پالیا ہے ۔ (إنا لله وإنا إليه راجعون)
وہ بے چاری تو لاپرواہ اور نامعلوم تھی ۔ ان حضرات کے بارے میں کیا حکم ہے۔ جنہوں نے یہ کام کرایا ۔۔۔اب دنیا میں کوئی تلافی کی صورت کیا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔جس ڈاکٹر نے ٹیکہ لگایا ہے۔ اس نے قتل کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس لیے ان کو توبہ واستغفار بھی ضروری ہے۔ اور کفارہ کے طور پر دو مہینے کے روزے بھی رکھنے پڑیں گے اور ساتھ میں نصف دیت یعنی پانچ ہزار درہم یعنی ایک ہزار تین سو،ساڑھے بارہ تولے چاندی یا اس کی قیمت بھی لازم ہوتی ہے۔
2۔باقی والدین پر قتل کے حکم کرنے سے دیت وغیرہ تو کچھ لازم نہ آئے گی۔ لیکن چونکہ قتل کا حکم کبیرہ گناہ ہے۔لہذا والدین پر ضروری ہے کہ وہ توبہ استغفار کریں۔
1۔(شبهه وهوأن يقصد ضربه بغير ماذكر)أی بما لا يفرق الأجزاء ولو بحجر وخشب كبيرين ۔۔۔۔ (وموجبه الإثم والكفارة و دية مغلظة)۔ الدرالمختار 10/ 161
دوسری جگہ ہے:
سقاه سماً حتی مات: إن دفعه إليه۔۔۔ولوأوجره) السم (ايجاراًتجب الدية)۔۔۔قال الشامي ولا يشكل علی قول أبي حنيفة لأن القتل حصل بما لا يجرح فكان خطأ العمد علی مذهبه۔(شامي 10/ 180)
(لاعاقلة للعجم)۔۔۔قلت وحيث لا قبيلة ولا تناصر فالدية في ماله ۔(شامي 10/ 351)
2۔ولو امر رجل حرّ صبيّاً حرّاً فالدية علی عاقلة الصبي لأنه المباشر ثم ترجع العاقلة علی عاقلة الرجل ۔۔وإن كان المامور حرّاً بالغاًعاقلاًفعلی عاقلة المامورالدية ولا ترجع العاقلة علی الآمر بحال لأن أمره لا يصح ولا يأتمر هو ايضاً بأمر مثله لا سيما في الدم ۔(تبيين الحقائق 6/ 159)
واعلم أن الآمر لاضمان إلا في سته: إذاكا ن الآمر سلطاناًأو أباً(والمامور إبنه)أو سيداً أو المامور صبياً أوعبداً امره بإتلاف مال غيره سيده،وإذا أمره بحفر باب في حائط الغير غرم الحافر ورجع علی الآمر۔(شامي كتاب الغصب)
© Copyright 2024, All Rights Reserved