• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مناسخہ کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ  میرے حقیقی چچا سید افسر خان ولد قندو خان سال 1947ء 1948ء کے لگ بھگ شہید ہوئے، بوقت شہادت ان کی والدہ اور ایک حقیقی بھائی (محمد افسر خان)اور دو بہنیں (نثارو بیگم، گلزارہ) زندہ تھیں، والد کا ان سے پہلے انتقال ہو چکا تھا اور بیوی بچے نہ تھے بلکہ لا ولد تھے۔

بھائی (محمد افسر خان) 1973ء، 1974ء میں فوت ہوئے۔ ان کے ورثاء میں والدہ، بیوی، 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں تھیں۔

1983ء کو بھائی (محمد افسر خان)  کی ایک بیٹی کا انتقال ہوا، جن کے ورثاء میں شوہر، والدہ، تین بھائی، اور دو بہنیں تھیں۔ ان کی اولاد کوئی نہیں تھی۔

1986ء میں سید افسر کی والدہ کا انتقال ہوا۔ انتقال کے وقت ان کے ورثاء میں دو بیٹیاں  (نثارو بیگم، گلزارہ)، تین پوتے، اور دو پوتیاں تھیں۔

1996ء میں سید افسر کی بہن (نثارو بیگم) فوت ہوئی۔ جن کے ورثاء میں ایک بہن (گلزارہ) اور 3 بھتیجے تھے۔ شوہر کا ان سے پہلے انتقال ہوا تھا اور لا ولد تھی۔

2004ء میں بھائی (محمد افسر خان)  کی بیوی فوت ہوئی۔ انتقال کے وقت ان کے ورثاء میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ان کے والدین کا ان سے بہت پہلے انتقال ہو چکا تھا۔

2018ء میں سید افسر خان کی بہن (گلزارہ) کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں ایک بیٹا اور بیٹی ہیں۔ شوہر کا ان سے پہلے انتقال ہو چکا ہے۔

مذکورہ صورت میں سید افسر خان ولد قندو خان کے بھتیجے بھتیجاں اور بھانجے بھانجیاں موجود ہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بتایا جائے کہ سید افسر خان کی وراثت کس کے حق میں جائے گی، درست حقدار کون ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں سید افسر خان کے کل ترکہ کو 124416 حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے سید افسر خان کے تین بھتیجوں میں سے ہر ایک کو 18690 حصے (یعنی 15.02%)، ان کی دو بھتیجیوں میں سے ہر ایک بھتیجی کو 6369 حصے (یعنی 5.11%)،  بھانجے (گلزارہ کے بیٹے) کو 35712 حصے (یعنی 28.70%) ، بھانجی (گلزارہ کی بیٹی) کو 17856 حصے  (یعنی 14.35%) اور فوت شدہ بھتیجی (محمد افسر خان کی بیٹی) کے شوہر کو 2040 حصے  (یعنی 1.63%)ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے:

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved