• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ایک وارث کاوراثتی دکان خریدنا،مکمل ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سےبیع کے معاہدے کو ختم کرنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

۱ ۔ رانا صاحب کے نو بچے ہیں چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ،زید ان کا سب سے بڑا بیٹا ہے رانا صاحب نے ایک دکان خریدی اور سب سے بڑا بیٹا زید دکان میں کام کرنے لگا وہ ریڈیو اور ٹیپ ریکاڈر کی مرمت کیا کرتا تھا اور روز انہ کی جو آمدن ہوتی اس میں سے سو روپے روز اپنے باپ کو دیتا تھا اور باقی اپنے لیے رکھتا تھا رانا صاحب کی وفات کے بعد بھی زید اسی باپ کی دکان سے روزی کماتا رہا نہ تو وراثت تقسیم کی گئی اور نہ ہی آمدنی میں سے باقی کے آٹھ بہن بھائیوں کا حصہ متعین کیا گیا جس گھر میں زید اور باقی بہن بھائی رہتے ہیں وہ بھی سب کاسانجھا یعنی باپ ہی کی ملکیت ہے اس گھر کے آنے والے ہر مہمان کی مہمانداری پر سارا خرچہ زید کرتا تھا بھائی بہن کی شادیوں کا خرچہ جہیز وغیرہ سب زید ہی نے کیا ایک بہن شادی کے بعد میکے آگئی او ر تقریبا چار یا پانچ سال میکے ہی میں رہی شوہر کوئی خرچہ تک نہ دیتا تھا اس بہن کے بچوں اور بہن کی ساری کفالت بھی زید ہی نے اکیلے کی ۔ غرض ضرورت کے مطابق زید بہن بھائیوں پر خرچہ تو کردیتا تھا مگر دکان سے باقاعدہ نفع متعین نہیں تھا ۔چند سال بعد باقی کے آٹھ بہن بھائیوں نے زید سے جھگڑا کردیا کہ وراثت تقسیم کرنی ہے گھر میں چونکہ سب کی رہائش تھی تو گھر کو تو چھوڑ دیا گیا اور دکان بیچنے کا مطالبہ ہو گیا زید نے دکان خود ہی خرید نے کا فیصلہ کیا ایک بیٹی اور پانچ بیٹے اسی شہر میں موجود تھے اور باقی کی دوبہنیں اور ایک بھائی دوسرے شہروں میں مقیم تھے ان کو بذریعہ فون اطلاع دے دی گئی کہ دکان زید خرید رہا ہے دکان کی قیمت پانچ لاکھ طے کی گئی حالانکہ سب کو یہ گلہ رہا کہ دکان کی مالیت زیادہ ہے مگر زید کم قیمت پر خرید رہا ہے زید نے دکان خرید نے کا ارادہ تو کرلیا مگر اس کے پاس پانچ لاکھ روپے نہیں تھے ۔ زید نے باپ کی دکان سے روزی کمانے کے دوران اپنا ذاتی گھر گاڑی گھر کےلیے اچھا سامان خرید رکھا تھا پیسے پورے کرنے کے لیے اپنا گھر گاڑی سامان وغیرہ سب بیچ دیا مگر پانچ لاکھ مکمل جمع نہ کرسکا۔بڑے بھائی نے کہا کہ ابھی میرے پاس جتنی رقم ہے وہ لے لو بقایا بعد میں دے دوں گا طے ہونے کے بعد زید نے پانچ بھائیوں میں سے تین بھائیوں کو ان کا مکمل حصہ دے دیا اور دو بھائیوں کو آدھا آدھا حصہ دے دیا یعنی کہ اب صرف دو بھائیوں کا آدھا آدھا حصہ اور تین بہنوں کا پورا پورا حصہ زید کے ذمے رہ گیا جو اس نے کچھ عرصے بعد دینے کا وعدہ کیا مگر اس تمام کاروائی کو کسی گواہ کے سامنے پورا نہیں کیا گیا نہ ہی کسی قسم کی تحریری صورت اختیار کرنے کی زحمت کی گئی ۔ ہاں صرف یہ کیا گیا کہ زید کے چھوٹے دوبھائی جن پر زید کو اعتبار نہیں تھا ان سے عدالت کے اسٹامپ پیپر پر حلف اور دستخط کروالیے مگر غلطی سے اسٹامپ پیپر پر دونوں کے مکمل حصے کی رقم لکھنے کے بجائے صرف چھے ہزار کی رقم لکھ دی گئی ۔ ان اسٹامپ پیپرز پر دونوں بھائیوں نے الگ الگ دستخط کرکے یہ حلف دیا ہے کہ ’’ہم نے اپنے باپ کی دکان اپنے بڑے بھائی کو فروخت کردی ہے اور دکان کے اپنے حصے کی رقم مبلغ چھ ہزار روپے لے چکے ہیں اب ہمارا دکان میں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘ یہ معاملات ہو جانے کے بعد سب نے زید سے صلح کرلی اور پہلے کی طرح باہم شیرو شکر ہو گئے اور پھر سے بہت سارے سال گزر گئے اور زید کے پاس اتنی رقم جمع نہ ہوپائی کہ جس سے وہ باقی دو بھائیوں اور تین بہنوں کو ان کے حصے ادا کر کے دکان اپنے نام کرواسکے اس معاملے میں شریعت کے کیا احکام ہیں:

۱ ۔ کیا دکان کی بقایا رقم ادا کرنے کی مہلت ختم ہو جانے پر باقی بہن بھائیوں کو زید سے فروخت(بیع) توڑدینے کا اختیار ہے (جب کہ ایک دفعہ دکان بک گئی تو بھائیوں کا دوکان سے حق ختم ہو گیا اب وہ اپنی رقم لینے کے حقدار ہیں ۔ ۔ )کہ دکان زید سے لیکر کسی اورکو بیچ دیں جبکہ وہ زید سے دکان کی کافی ساری قیمت لے چکے ہیں:

۲ ۔ اگر زید سے معاہدہ توڑنے کی اجازت ہے تو اب چونکہ کافی سارے سال گذرجانے کے بعددکان کی مالیت پانچ لاکھ سے بڑھ کر دو کروڑ ہو چکی ہے تو اب جب دکان دوکروڑ میں بکے گی تو کیا اب سب کو حصہ دو کروڑ کے حساب سے ملے گا یا پانچ لاکھ کے حساب سے:

۳ ۔ اگر دکان کے حصے نئی قیمت کے مطابق تقسیم ہوں گے تو کیا ان پیسوں میں سے زید کو بھی حصہ ملے گا جو پہلے دکان خرید رہا تھا؟اگر ہاں تو اس کی کیا وجہ ہے؟

۴ ۔ اگر اب دو کروڑ کے حساب سے حصے تقسیم ہوں گے تو ان بھائیوں کو حصہ کیسے دیا جائیگا جو پانچ لاکھ کے مطابق اپنا اپنا حصہ لے چکے تھے؟

۵ ۔ اگر ان بھائیوں کو نیا حصہ ملے گا تو وہ اس پرانے حصے کا کیا کریں جو زید سے لے چکے ہیں ؟

۶ ۔ اگر ان بھائیوں کو پرانا حصہ (جو پہلے ہی لے چکے ہیں )ہی ملنا ہے تو اب نئے میں سے بچنے والی رقم کون رکھے گا ۔

۷ ۔ اگر زید سے معاہدہ توڑ کردکان کسی اور کو بیچ کرنئے حصے تقسیم کیے جائیں گے تو زید کی اس رقم کا کیا ہو گا جو وہ پہلے اپنے بھائیوں کو حصوں کی مد میں دے چکا ہے;238; ایسے تو زید کا نقصان ہے ۔

۸ ۔ اگر دکان زید کے بجائے کسی اور کو بیچنے کی اجازت ہے تو ان تحریری یا زبانی معاہدوں کا شرعا کیا حکم ہے جن میں بھائیوں نے مکان کے اپنے حصے سے دستبرداری کا اقرار کیا ہے یا پھر کچھ بھی کہے بغیر دکان کے اپنے حصے کے پیسے زید سے پکڑ بھی لیے اور خر چ بھی کرلیے اور دکان کے بیچنے کے لیے زید سے جو لڑائی کی تھی اسے بھی ختم کرکے صلح کرلی تھی؟

۹ ۔ کیا ان بھائیوں کا نیا حصہ لینا ناجائز نہیں ہو گا کیونکہ وہ تو زید سے اپنا حصہ لے کر علیحدہ ہو گئے تھے اور دکان زید کوبیچنے پر راضی تھے اب وہ کس حق سے نیا حصہ وصول کریں گے؟

۱۰۔ اگر ان بھائیوں کا نیا حصہ لینا جائز نہیں ہے تو اب ان کے حصے بڑا بھائی وصول کرسکتا ہے کہ انہیں ایک پیسہ بھی نہ دے اور پوری رقم خود رکھے کیونکہ وہ انہیں پرانے حصے دے چکا تھا؟

۱۱ ۔ اگر دکان کو زید سے واپس لے کر کسی اور کو بیچنے کی شرعا اجازت ہے تو اس کی کیا وجہ ہے ;238; پہلے تو دکان سب نے رضامندی سے زید کو بیچ دی تھی اور آدھے سے بھی زیاد ہ دکان کی قیمت زید سے وصول کرلی تھی اس لحاظ سے تو زید ہی دکان کا مالک بن چکا تھا تو اب اس سے دکان واپس لینا کیسے ممکن ہو گا؟برائے مہر بانی اس پیچیدہ معاملے کی تفصیلی وضاحت کیجئے ۔ اس میں غلطی کے باعث زید یا آٹھ بھائی بہن دونوں میں سے ایک فریق حرام کا مرتکب ہو گا اور اس کی نسلیں تک اس گناہ میں ملوث رہیں گی ۔

۱۲ ۔ کیایہ جائز ہو گا کہ جن بھائیوں نے پورا یا آدھا حصہ لے لیا تھا وہ نئی قیمت پر دکان بکنے پر نیا حصہ لے لیں اور پرانے حصے کے لیے گئے پیسے زید کو واپس کردیں ؟

۱۳۔ اگر وہ بھائی جو پہلے ہی اپنا مکمل حصہ یا آدھا حصہ لے چکے تھے وہ اپنا نیا حصہ زید کو نہ دینا چاہیں اور بضد رہیں کہ ہم سے پرانا حصہ واپس لے لو اور نیا حصہ دے دو تو کیا وہ جائز ہوں گے اور اپنی بات منوانے کے لیے وہ زید پر دنیاوی عدالت میں کیس کردیں کہ دکان زید سے لے کر بیچی جائے اور ہم سے پرانا حصہ لے کرنیا حصہ دیا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہو گا؟
۱۴ ۔ کافی سال گزر جانے کے بعد جب زید دکان کی بقایا رقم ادا نہ کرسکا تو ایکبار پھر اس سے تقاضا ہوا ۔ بڑے بھائی کو معلوم تھا کہ میں نے اتنی رقم ادا کردی تھی اور اب تھوڑی سی رہتی ہے تو جو بھائی پورا حصہ لے چکے تھے اور جو آدھا لے چکے تھے وہ تو نمٹ چکے ہیں اب صرف دو بھائیوں کو آدھا آدھا حصہ اور تین بہنوں کو پورا پورا حصہ دینا پڑے گا مگر اس کے برخلاف آٹھوں کے آٹھ بھائی بہن نے یہ مطالبہ کیا کہ دکان کسی اورکو بیچ کرہم سے وہ تمام رقم واپس لے لو جو تم نے ہ میں دی تھی زید نے یہ قبول نہ کیا بلکہ اس نے کہا تم دکان مجھے دے چکے ہو،اس لیے اب یہ معاہدہ کرو کہ ’’تم سب دکان مجھے بیچ چکے ہو کافی رقم بھی لے چکے ہو، اب تھوڑی رقم رہتی ہے مجھے دکان کا مالک بنادو، میں دکان بیچ کرتینوں بہنوں کو اور دو بھائیوں کو ان کی بقایا رقم نئی قیمت کے مطابق دوں گا اور ان تین بھائیوں کو جومجھ سے مکمل حصہ لے چکے ہیں انہیں بھی اپنے پاس سے بطور حسن سلوک دو یا تین لاکھ دے دوں گا ۔ زیدکا ایساچاہناشرع کے نزدیک درست نہیں ؟

۱۵ ۔ مگر زید کی یہ بات بہن ،بھائی نہیں مانے اور زید پر کیس کردیا گیا کہ عدالت دکان زید سے لے کر کسی اورکو بیچ دے تاکہ ہم نئی قیمت کے(حساب سے) حصے وصول کرلیں اور زید کی دی گئی رقم زیدکو واپس کردی جائے گی ۔ کیا ان بھائی بہنوں کا ایسا کیس کرنا جائز ہے ؟اگر نہیں ہے تو اب ان کے لیے کیا کفارہ ہو گا کیونکہ وہ زید سے دکان لے کرکسی اورکو بیچ چکے ہیں اور دکان کا نیا حصہ لے کر پرانا حصہ زید کو دے چکے ہیں ؟نیز اگر ان کا یہ فعل ناجائز ہے تو ایسا کرنے والوں کے لیے کیا وعید یں ہیں؟

۱۶ ۔ زید کا ایک بھائی بکر ہے وہ زید کے زیر کفالت تھا عمر تو 45سے 50سال یا 50سے 55سال کی ہے مگر کماتا نہیں ہے اور رہتا اسی مکان میں ہے جوان کے باپ کاہے اور جس کا بٹوارہ نہیں کیا گیا ۔ زید پر کیس ہونے سے تھوڑا عرصہ پہلے ہی بکر کی شادی ہوئی تھی مگر بکر کی نوکری نہیں ہے اس لیے بکر کے حصے کا بجلی اور گیس کابل زید ہی ادا کرتا ہے چونکہ بکر زید کی زیر کفالت ہے اس لیے باقی بھائی بہن نے کیس میں اس کانام نہیں لکھا مگر کیس کے بعد سب نے بکر کو اچھی طرح سمجھایا کہ تم بھی کیس میں ہمارے ساتھ اپنے لیے بھی نئے حصے کا مطالبہ کردو مگر بکر خاموش رہا واضح رہے کہ بکر ان بھائیوں میں شامل ہے جو پرانی پیمنٹ پر دکان کا مکمل حصہ لے چکے ہیں اور دکان سے دستبردار ہونے کا اقرار بھی اسٹامپ پیپر پر لکھ چکے ہیں بڑے بھائی زید نے سب بھائی بہنوں کو وعید یں سنائی کہ تم بے ایمانی مت کرو مگر کوئی نہ مانا ۔ ایک دن زید بکر کو عدالت لے گیا وہاں بکر سے حلف دلایا جس میں بکر نے اقرار کیا کہ میں پہلے زید سے دکان کا مکمل حصہ لے کر دکان سے دستبردار ہوں اور اب نئی قیمت کا اپناحصہ زید کو دیتا ہوں بکر نے ہوش وحواس میں عدالت میں گواہوں کے رو برو اپنا حصہ زید کے نام لکھ دیا ۔ کیا زید کا بکر سے یہ سب لکھوانا جائز ہے؟اور کیا بکر کو اپنا حصہ بڑے بھائی کو دینا اور اپنے باقی بھائی بہن کے خلاف (جو کہ زید کو دکان بیچنے کا معاہدہ توڑ کر اب کسی اورکو دکان بیچناچاہ رہے ہیں )زید کا ساتھ دینا جائز ہے؟یہ سب لکھواتے وقت زید نے بکر سے وعدہ کیاتھا کہ جب مجھے تمہارے حصے کے بھی پیسے ملیں گے تو میں ان میں سے کچھ رقم تمہیں بھی دو ں گا اور پھر زید بکر کو ہر ہفتے پانچ سو روپے یعنی ماہانہ دوہزار روپیہ دیتا رہنے لگا ۔

۱۷۔ بڑے بھائی زید کا موقف ہے کہ بھائی بہن پہلے مجھے دکان بیچنے کا معاہدہ کرچکے ہیں اور اسی وجہ سے میں نے دکان کی آدھی سے زیادہ قیمت ادا کردی تھی مگر اب میرے پاس باقی رقم دینے کے لیے موجود نہیں ہے تو اس مقصد کے لیے بھائی بہن مجھے دکان کا مالک بنا دیں یعنی لکھ دیں کہ ہم نے دکان اتنے سال پہلے اپنے بڑے بھائی کو پانچ لاکھ میں بیچ دی تھی پانچ لاکھ میں سے اتنے پیسے بھائی ہ میں ادا کرچکا ہے اور اتنے پیسے بڑے بھائی کے ذمے بقایا ہیں اب ہم سب بھائی بہن بڑے بھائی کو مالک بناتے ہوئے اختیار دیتے ہیں کہ وہ دکان نئی قیمت پر بیچ دے اور ہ میں ہمارا بقایا حصہ جو کہ پانچ لاکھ کے مطابق ہو گا وہ ادا کردے ۔ چھوٹے بھائی بہنوں کاموقف ہے کہ بڑے بھائی کو ہم نے پانچ لاکھ کے عوض دکان فروخت کردی تھی مگر چونکہ اسنے پوری قیمت ادا نہیں کی ہے تو اس لحاظ سے وہ دکان کا مالک بنا ہی نہیں اسی لیے تو دکان ابھی تک ہمارے باپ ہی کے نام ہے چونکہ اب بڑا بھائی بقایا رقم ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اب حل یہ کیا جائے کہ دکان کسی ا ور کو بیچ کر سب نئی قیمت کے مطابق نیا حصہ وصول کریں اور بڑا بھائی بھی اپنا حصہ لے اور بڑے بھائی سے لی ہوئی رقم اسے واپس کردی جائے ۔ دونوں فریقین میں سے کس کا موقف درست ہے اورکس کا غلط ہے؟درست موقف رد کرنے والے فریق کے لے کیا وعید ہے اور اب اس غلطی کا کیا کفارہ ہے؟

۱۸۔ جب زید پر کیس کردیا گیا تو اس نے تینوں بہنوں سے مدد چاہی کہ تم بھائیوں کے بجائے میرا ساتھ دو کیونکہ انہیں علم تھا کہ زید پہلے رقم ادا کرچکا ہے انہیں عدالت میں یہ گواہی دینی تھی کہ ’’ہم جانتی ہیں کہ ہمارا بڑا بھائی سچا ہے ہم نے دکان بڑے بھائی کو فروخت کردی تھی اور اب دوسرے بھائی اپنا نیا حصہ لے کر پرانا حصہ دینے کی بات ناجائز کررہے ہیں ‘‘مگر بہنوں نے زید کا ساتھ نہ دیا اور دوسرے بھائیوں کا ساتھ دیا ان کے انکار کی وجہ سے بڑا بھائی اکیلا رہ گیا اور اس کا کیس کمزور ہو گیا ۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں بہنوں کو کس کا ساتھ دینا جائز ہو گا؟بہنوں کا فیصلہ شرع کی رو سے ناجائز ہے تواب وہ کیسے خود کو اللہ کے عذاب سے بچاسکتی ہیں؟کیا کفارہ ہو گا؟

۱۹ ۔ اہم بات!زید نے پرانی قیمت کے کچھ پیسے ادا کرنے کے بعد دکان کو کرائے پردے دیا تھا اور دکان کا کرایہ اکیلے ہی وصول کرتا تھا اس بات پر باقی بہن بھائی غصہ کرتے تھے کہ زید مالک توہے ہیں نہیں پھر کس حق سے سارا کرایہ اکیلے ہی رکھتا ہے؟مگریہ غصہ پیٹھ پیچھے ہوتا تھا سامنے اظہار نہیں کرتے تھے اور زید کے کرایہ لینے میں رکاوٹ نہیں بنے کیا زید کا اس طرح سے کرایہ لینا جائز ہے؟

۲۰۔ جب کیس لمبا ہونے لگا تو چھوٹے بھائی بہن نے زید سے صلح کرکے کیس ختم کردیا ۔ صلح میں یہ شرائط طے پائیں :

۱ ۔ دکان زید سے واپس لے کرنئی قیمت پر کسی اور کو بیچی جائے گی ۔

۲ ۔ بکر چونکہ اپنا حصہ زید کے نام لکھ چکا ہے تو اس کا حصہ بھی بڑے بھائی کو ملے گا ۔

۳ ۔ سب بھائی دکان کی پرانی قیمت کا حصہ کی لے جانی والی رقم زید کو واپس کردیں گے ۔

۴ ۔ دکان اسی کو بیچیں گے جس کو دکان زید نے کرائے پردی تھی ۔

۵ ۔ دکان خریدنے والا دو کروڑ ایک ساتھ نہیں دے سکتا تو وہ دو تین قسطوں میں پیسے دے گا ۔

۶ ۔ دکان خریدنے والا جب تک دکان کی مکمل قیمت ادا نہیں کرے گا دکان اس کے نام رجسٹر نہیں کرائیں گے ۔

۷ ۔ دکان خریدنے والا جب تک دکان کی مکمل رقم نہیں دے گا تب تک وہ دکان کا کرایہ بھی دیتا رہے گا جو وہ پہلے صرف زید کو دیتا تھا مگر اب کرایہ سارے بھائی بہنوں میں تقسیم ہوا کرے گا ۔

۸ ۔ زید نے کرائے دار سے وقتا فوقتا ادھار لیا تھا جو کہ اب بارہ لاکھ ہو گیا یہ تمام رقم زید نے اکیلے ہی خرچ کی تھی اس لحاظ سے بارہ لاکھ کا مقروض صرف بڑا بھائی ہے مگر اس نے مطالبہ کیا کہ تم نے دکان مجھ سے واپس لے لی ہے تو اب بارہ لاکھ کاقرض تم سب اپنے حصے سے جمع کرکے ادا کرو مگر میرے اور بکر کے حصے میں سے ایک روپیہ نہیں ملے گا یہ بات بادل ناخواستہ قبول کی گئی ہے اور بعد میں سب زید کو کو ستے ہیں کیونکہ اس وجہ سے ان کے حصے کی رقم کٹ گئی ۔ صلح کی شرائط کے حوالے سے سوال :

۱ ۔ کیا زید کا لیا جانے والا قرض زید کو دینا چاہیے یا بہن بھائیوں سے دلوانا جائز ہے ؟اگر نہیں تو اب زید کو کیا کرنا ہو گا ۔
۲ ۔ کیا یہ طے کرنا درست ہے کہ زید کو بکر کا حصہ بھی ملے گا کیونکہ بکر اپنا حصہ زید کو لکھ چکا ہے یعنی کہ زید کو بکر کاحصہ لینا جائز ہے ۔

۲۱ ۔ صلح کی شرائط کے مطابق فیصلے پر عمل شروع کیا گیا ۔ دکان اسی کو بیچی گئی جس نے دکان کو کرایہ پر لے رکھا تھا دکان خریدنے والا جس کانام کامران ہے وہ زید کا پہلے سے ہی واقف تھا اس لیے زید نے اس سے اپنا اور بکر کا حصہ دونوں کی رقم سب بھائی بہنوں سے پہلے اور ان کی لاعلمی میں ہی لے لی کیونکہ زید کو ڈر تھا کہ پہلے بھی بھائی بہن مجھے دکان بیچ کر اب واپس لے کر دھوکہ کر چکے ہیں تو اب پھر سے کہیں صلح کی شرائط میں بھی دھوکہ نہ کردیں اس لیے زید اپنا اور بکر کا حصہ لے کر پہلے ہی فارغ ہو گیا چند ماہ بعد کامران نے باقی بھائی بہنوں کو ان کا آدھا آدھا حصہ دے دیا اور باقی حصہ بعد میں دینے کی لکھت پڑھت کرلی اب جب سب سے کو معلوم ہوا کہ زید نے تو اپنے دونوں حصے مکمل لے لیے ہیں اور ہ میں ادھورے حصے ملے ہیں تو وہ بہت ناراض ہوگئے ۔ کیا زید کا ایسے رقم لے لینا غلط تو نہیں کہلائے گا؟

۲۲ ۔ اب معاملہ شروع ہوا زید اور بکر کے درمیان بکر کو جیسے ہی علم ہوا کہ زید نے اس کے حصے کی رقم مکمل لے لی ہے جو کہ وہ خود ہی بکر کے نام لکھ چکا ہے تو اب اسے اپنی فکر ہونے لگی زید نے بکر سے حصہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ تمہارے حصے میں سے کچھ تمہیں بھی دوں گا تو وہ اس رقم کا انتظار کرنے لگا کہ کب زید اسے بھی پیسے دے اس دوران اور اس سے پہلے بھی زید بکر کو برابر ہفتہ وار پانچ سور روپے دے رہا تھا جب بکر سے رہا نہ گیا تو اس نے زید سے تقاضا کیا بکر کے حصے کی رقم ہے 22لاکھ جو کہ اس نے پوری کی پوری زید کے نام کردی ہے لکھت میں کوئی ذکر نہیں ہے کہ زید بکر کے حصے میں سے اتنی اتنی رقم بکر کو دینے کا پابند ہے بلکہ یہ تو زید اور بکر کے درمیان زبانی بات ہوئی تھی مگر اس میں بھی رقم طے نہیں ہوئی تھی زید نے صرف یہ کہا تھا کہ تمام بہن بھائیوں میں سے صرف تم اکیلے ہی میرا ساتھ دے رہے ہو تو تمہارا حصہ جب مجھے مل جائے گاتو تمہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دوں گا ۔

بکر نے زید سے تقاضا کیا کہ ’’میرا حصہ 22لاکھ ہے جو تم نے لے لیا ہے اب تم اس میں سے مجھے آدھی رقم دیدو اگر میں تمہیں اپنا حصہ لکھ کرنہ دیتا تو تمہیں صرف تمہارا حصہ ہی ملتا یہ تو میرے لکھنے کی وجہ سے تم ڈبل حصہ لے سکے ہو اس لیے آدھا مجھے دو‘‘زید نے بکر کا مطالبہ سنا تو ہکا بکا رہ گیا زید نے بکر کو سمجھایا کہ ’’سالوں پہلے جب تم لوگوں نے دکان مجھے بیچی تھی تو تم نے تب ہی اپنا پورا حصہ لے کے کردکان سے دستبرداری کردی تھی اسی وجہ سے تو اب تم نے مجھے دکان کی نئی قیمت کا حصہ لکھ کردیا تھا کیونکہ پرانا حصہ لے چکنے کی وجہ سے دکان کے نئے حصے سے تمہارا حق ختم ہوچکا ہے تم سے عدالت میں حصہ لکھواتے وقت میں نے تمہیں کچھ رقم دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ تو بطور شکریہ کے تمہیں دو یا تین لاکھ دینے کا سوچ کرکیا تھا حالانکہ جب تم پرانا حصہ لے کرہی اپنا حق ختم کرچکے تھے تو نئے حصے میں سے تمہارا تین روپے کابھی حق نہیں ہے پھر تم کس حق سے اپنے حصہ کی رقم میں سے آدھے مانگ رہے ہو جبکہ اپنا حصہ تم نے ہوش اور حواس میں اپنی رضامندی سے عدالت میں گواہوں کے سامنے مجھے لکھ دیا ہے ۔ ہاں میں نے جو وعدہ کیا ہے اس پر قائم ہوں جس گھر میں ہم رہتے ہیں جب یہ گھر بکے گا تو اس گھر کی رقم میں سے میں اپنے حصے کی رقم تمہیں دے دوں گا جو تین لاکھ یا چار لاکھ ہوں گے یعنی کہ جب یہ گھر جو ہمارے باپ کے نام ہے بکے گا تو اس گھر میں سے تم دوحصے لے لینا ایک حصہ تمہارا اور ایک حصہ میرا اس طرح سے میرا وعدہ پورا ہو جائے گا کہ بطور شکریہ کے دینے والی رقم میں تمہیں اپنے گھر کے حصے کی صورت میں دے دوں گا ۔ بکر نے زید کی بات نہیں مانی اور اب کی بار اکیلے بکر نے زید سمیت اپنے تمام بھائی بہنوں پرکیس کردیا بلکہ جھوٹا کیس کردیا ہے ۔ بکر نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ’’میرے بہن بھائیوں نے دکان بیچ دی ہے اور میرے علاوہ سب نے دکان کے آدھے آدھے حصے وصول کرلیے ہیں جبکہ میرا حصہ سب بہن بھائیوں نے مجھ سے زبردستی اپنے نام کروالیا ہے جبتک مجھے بھی میرا حصہ نہیں مل جاتا عدالت دکان بکنے سے روکے اور میرے بہن بھائیوں سے میرا حصہ مجھے دلایا جائے جو انہوں نے مجھ سے زبردستی لکھوایا ہے ‘‘بکر کی یہ درخواست جھوٹی ہے کیونکہ زید نے بکر کا حصہ کسی بھی قسم کی زبردستی کیے بغیر بکر کی رضامندی سے ہی لیا ہے ۔ بکر نے خود زید کے ساتھ عدالت جاکر بغیر کسی دباءو کے اپنے ہوش وحواس میں دکان کے نئے حصے سے اپنی دستبرداری لکھی ہے اور وجہ یہ لکھی ہے کہ بکر زید سے دکان کا پرانا حصہ وصول کرچکا ہے تو اب دکان کا بکرکانیا حصہ لینے کا اختیار صرف زید کو ہے اس کے علاوہ باقی بھائی بہنوں نے بکر کے حصے میں سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا ہے بلکہ پہلے سب نے بکر کو بہت روکا تھا کہ تم بھی ہماری طرح زید کے خلاف ہو جاءو اور پرانا حصہ زید کو واپس کرکے ہمار ی طرح سے اپنا نیا حصہ لے لینا مگر تب تو بکر نے ان کی بات نہ مانی اور اپنے آپ کو ایماندار کہتا تھا اورا ب ایمانداری بھول کرسب پرجھوٹے الزام لگادئیے ہیں ۔

۱ ۔ جب بکر نے زید کو اپنا حصہ بقائم ہوش وحواس اپنی رضامندی سے لکھ دیا تھا تو کیا اب زید سے حصہ واپس لینے کا مطالبہ جائز ہے؟

۲ ۔ بکر کا آدھا حصہ واپس لینے کا مطالبہ رد ہونے پر زید اور سب بہن بھائیوں پر چھوٹا کیس کرنا جائز ہے؟

۳ ۔ زید نے پرانا حصہ بکر کو دے دیا تھا اور بکر نے سب کے سامنے اس بات کو قبول کیا ہے اور یہ بات بکر نے میرے سامنے خود اپنی زبان سے کہی ہے کہ وہ اپنا حصہ زید سے مکمل لے چکا ہے جب وہ سب دکان زید کو بیچ رہے تھے اس لحاظ سے شریعت میں زید کے لیے کیا احکام ہوں گے کیا زید پر یہ فرض ہے کہ وہ بکر کو لازمی دوتین لاکھ روپے یا اپنا گھر کا حصہ دے ؟اگر زید بکر کو ایک روپیہ بھی نہ دے تو وہ گناہگارہوگا؟اور اگر دے دے تو یہ لازم کہلائے گا یا احسان ہوگا؟
۴ ۔ اگر بکر کا ایسا مطالبہ اور جھوٹا کیس کرنا ناجائز ہے تو برائے مہربانی بتادیں کہ بکر کے اس حرام فعل پر قرآن وحدیث میں کیا وعیدیں اور اس حرام فعل کو چھوڑنے پر کیا بشارتیں ہیں اور ساتھ ہی اس غلطی کاکیاکفارہ ہے ؟

۲۳ ۔ بکر کے کیس کرنے کے بعد سے کامران جو یہ دکان خریدرہا ہے اور دکان کی آدھی سے زیادہ رقم ادا بھی کرچکا ہے وہ بہت پریشان ہو گیا ہے کہ پتہ نہیں فیصلہ کیا ہوا ور اس کی ادا کی ہوئی رقم ڈوب نہ جائے اس کا حل اس نے یہ کیا کہ دوکام کیے اس نے دکان کا کرایہ دینا بند کردیا ہے ۔ ۲ ۔ اس نے دکان کی بقایا قیمت دینے سے انکار کردیا ہے اس کا کہنا ہے کہ جبتک بکر کا کیس ختم نہیں ہو گا تب تک نہ تو وہ کرایہ دے گا نہ ہی بقایا رقم دے کر دکان اپنے نام کروائے گا ۔ اس کا مطالبہ ہے کہ پہلے بکر کو مناءو اور دکان پر بغیر کرایہ دے کام کررہا ہے ۔ کیا کامران کا کرایہ بند کردینا جائز ہے جبکہ یہ اس نے طے کیا تھا کہ جب تک وہ دکان کی مکمل رقم نہیں دے گا تب تک وہ کرایہ دیتا رہے گا؟

۲ ۔ کیا اس کا بقایا رقم کیس کے ختم ہونے تک روک لینا جائز ہے؟اس وجہ سے وہ بہن بھائی اذیت میں مبتلا ہیں جنہوں نے بقایا رقم لینی ہے ۔

۲۴۔ میں احساس ہے کہ سوال بہت لمبا ہے آپ حضرات مفتیان کرام ہیں آپ یہ معاملہ محض دویاتین جوابوں میں ہی حل کرسکتے ہیں مگر یہ معاملہ ہمارے پورے خاندان کا ہے سب کے سب اس مسئلے کی لپیٹ میں ہیں المیہ ہے کہ سب کے سب صرف اپنے آپ کو جائز کہتے ہیں اور دوسرے کو ناجائز خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم کہتے ہوئے مفت میں دوسرے پر حرام اورعذاب الہی کے فتوے لگاتے ہیں اس معاملے کی وجہ سے سگے بہن بھائی قطع تعلق کے عظیم گناہ کے مرتکب ہوگئے ہیں اسی لیے ایک دوسرے کو اپنی خوشیوں اور غموں سے کاٹ رکھا ہے نہ ہی شادیوں میں بلایا جاتا ہے نہ ہی بیماریوں میں عیادت کی جاتی ہے حتی کہ حج اور عمرہ کی سعادت پانے والے بھی ملنے نہیں آئے اور مبارک دینے والے مبارک دینے کے روا دار نہ ہوئے حدتو یہ ہے کہ موت تک پر نہ ملنے کی باتیں کرتے ہیں ،وجہ صرف یہ ہے کہ ہر کوئی خود کو معصوم کہتا ہے اور دوسرے کو قصور وار بناتا ہے اور قطع تعلقی کا معاملہ ساری عمر رکھنے کی باتیں کرتے ہیں ۔ آپ سے درخواست ہے کہ لکھے ہوئے سوالات کو عام مت خیال کریں نہ ہی سارے سوالات کو محض دو تین جوابات میں حل کیجئے گا ۔ حالانکہ ہم نے بہت سوال کیے اور بعض دہرائے بھی ہیں مگر چو نکہ ہمارے لیے ہر ہر سوال بہت اہم ہے کیونکہ انہی کے جوابات پر خاندان کی حلال زندگی یا حرام زندگی کا دارومدار ہے اسی لیے ازراہ کرم آپ ہر ہر سوال کا جواب اسی طرح سے سلسلہ وار ہی دیجئے گا جیسے سلسلے وار سوالات کیے ہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

-1 مذکورہ صورت میں دکان کی خریدوفروخت ہوجانے کے بعد کوئی ایک فریق دوسرے کی رضامندی کے بغیر فروخت (بیع)کو نہیں توڑ سکتا اور نہ ہی بیچنے والا یہ دکان کسی اور کو بیچ سکتا ہے ۔ البتہ بیچنے والے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی بقیہ رقم کے بدلے اتنے سونے یا چاندی کا مطالبہ کرے جتنا سونا یا چاندی اس دکان کی خریدوفروخت کے وقت اس رقم کا بنتا تھا۔

-2مذکورہ صورت میں یکطرفہ طور پر معاہدہ توڑنے کی اجازت نہیں اور اگر فریقین کی رضامندی سے معاہدہ توڑا جاتا ہے تو سب کو حصہ دکان کی موجودہ مالیت کے لحاظ سے ملے گا نہ کہ پانچ لاکھ کے حساب سے ۔ تاہم اس صورت میں خریدنے والے کو یہ حق حاصل ہو گا کہ اپنی دی ہوئی رقم کے بدلے اتنے سونے یا چاندی کا مطالبہ کرے جتنا سونا یا چاندی رقم دیتے وقت اس رقم کا آتا تھا ۔

-3اگر باہمی رضامندی سے دکان کے سابقہ سودے کو توڑدیا جائے تو زید کا بھی اس دکان میں نئی قیمت کے لحاظ سے حصہ ہو گا کیونکہ مال وراثت ہونے کی وجہ سے زید کا بھی اس دکان میں حصہ ہے ۔

-4زید ان بھائیوں سے اپنی دی ہوئی رقم یا اس رقم کے بدلے میں اتنا سونا یا چاندی لے لے جتنا سونا یا چاندی یہ رقم دیتے وقت آئی تھی اور دو کروڑ کے حساب سے ان بھائیوں کا جو حصہ اس دکان میں بنتا ہے وہ ان کو ادا کردے ۔

-5وہ پرانا حصہ زید کو واپس کریں گے ۔

-6ان بھائیوں کو نئی قیمت کے لحاظ سے حصہ ملے گا اور جو پرانا حصہ یہ لے چکے تھے اسے واپس کریں گے ۔

-7اگر زید کی رضامندی سے معاہدہ توڑاجاتا ہے تو زید اپنی دی ہوئی رقم کے بدلے اتنے سونے یا چاندی کا مطالبہ کرسکتا ہے جتنا سونا یا چاندی اس رقم کی ادائیگی کے وقت اس رقم کا بنتا تھا اور دکان میں نئی قیمت کے لحاظ سے بھی اس کا حصہ ہو گا ۔ اس صورت میں زید کا نقصان نہ ہو گا یا نہ ہونے کے برابر ہو گا ۔

-8زید کی رضامندی کے بغیر باقی بہن بھائیوں کو سابقہ سودا ختم کرنے کا حق نہیں اور سابقہ سودا ختم کیے بغیر اس دکان کو آگے بیچنابھی جائز نہیں ۔

-9جب زید کی رضامندی سے سابقہ سودا ختم ہوگیا ہے اور یہ بھائی زید سے لی ہوئی رقم یا اس کے بدلے سونا یا چاندی زید کو واپس کردیتے ہیں تو اب ان کے لیے نیا حصہ لینا ناجائز نہیں ہو گا ۔

-10اگر سابقہ بیع نہ توڑی جاتی تو پھر زید کو یہ حق حاصل ہے ۔ اور جب توڑی دی گئی جائے تو پھر اسے یہ حق حاصل نہیں ۔

-11زید کی رضامندی کے بغیر سابقہ سودا ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ جب زید ہی راضی ہوگیا تو سابقہ سودا ختم ہو گیا اور سابقہ سودا ختم ہونے کی وجہ سے ہر وارث کا اس دکان میں اپنے شرعی حصے کے بقدر حق ہو گا اور آدمی اپنا حق کسی کو بھی فروخت کرسکتا ہے ۔

-12اب جب زید رضامندہو گیاتو یہ جائز ہےورنہ نہیں ۔

-13زید کی رضامندی کے بغیرایسا کرنا جائز نہ ہو گا ۔

-14زید کے لیے اگرچہ بامر مجبوری اس کی گنجائش تھی مگر باقی بہن ،بھائیوں کے لیے زیادہ رقم لینے کی گنجائش نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ جن بہن ،بھائیوں کو ابھی رقم نہیں ملی تھی وہ اپنی بقیہ رقم کے بدلے اتنے سونے یا چاندی کامطالبہ کرسکتے تھے جتنا سونا یا چاندی اس رقم کا خریدوفروخت کے وقت بنتا تھا ۔

-15بہن بھائیوں کا یہ فعل ناجائز اور ظلم تھا اور ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی شکل میں ہوگا جس وقت آدمی روشنی کا محتاج ہو گا ۔

-16زید کا بکر سے یہ لکھوانا جائز تھا کیونکہ بکر واقعۃ اپنا حصہ لے چکا تھا اور بکر کو بھی اپنے بڑے بھائی کاساتھ دینا جائز تھا ۔

-17مذکورہ صورت میں زید کا موَقف درست ہے البتہ جن بہن بھائیوں کا حصہ باقی ہے ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حصے کے بدلے اتنے سونے یا چاندی کا مطالبہ کریں جتنا سونا یا چاندی ان کے حصوں میں دکان فروخت کرتے وقت بنتا تھا ۔ اس غلطی کا کفارہ یہ ہے کہ یا تو زید کو راضی کریں ورنہ اپنے حق سے زیادہ کی رقم زید کو واپس کریں ۔

-18مذکورہ صورتحال میں بہنوں کو زید کا ساتھ دینا چاہیے تھا ۔ جوکچھ بہنوں نے کیا اس کی تلافی یہ ہے کہ یاتو زید کو راضی کریں یا جو حصہ انہوں نے اپنے حصے سے زیادہ لیا ہے وہ واپس کریں ۔

-19مذکورہ صورت میں زید کا کرایہ لینا جائز تھا ۔

20(۱)زید کا لیا جانے والا قرض زید کو ہی دینا چاہیے تھا لیکن جب صلح ہوئی تو اب یہ قرض باقی نہیں بہن بھائیوں سے دلوانا جائز ہے ۔

(۲)درست ہے ۔

-21مذکورہ صورت میں زید کا ایسے رقم لینا غلط نہیں ۔

22۔(۱)مذکورہ صورت میں بکر کا زید سے حصہ واپس لینے کا مطالبہ جائز نہیں ۔

(۲)جائز نہیں ۔

(۳)زید نے جب کچھ نہ کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا تو اب زید کو اپنا وعدہ نبھا نا ضروری ہے ۔

(۴)کسی پر جھوٹا کیس کرنے سے اللہ ناراض ہوتے ہیں اور ناجائز کام کو چھوڑ نے سے اللہ خوش ہوتے ہیں ۔ اس غلطی کا کفارہ یہی ہے کہ بکر اپنا کیس واپس لے لے ۔

۲۳ ۔ (۱)یہ شرط ویسے ہی خلاف شرع تھی اس لیے کامران کا کرایہ بند کردینا جائز ہے بلکہ وہ دیا ہوا کرایہ واپس لینے کا حق رکھتا ہے ۔

(۲)مذکورہ صورت میں اگر باقی بہن بھائی دکان کامران کے نام کردیتے ہیں تو کامران کا سب کی رقم روک کر رکھنا جائز نہیں ورنہ کیس ختم ہونے تک کامران باقی رقم روک سکتاہے ۔

1 ۔ نوٹ:مذکورہ سوالات کے جو جوابات لکھے گئے ہیں یہ اس بنیاد پر ہیں کہ مذکورہ حقائق کو سب فریق تسلیم کرتے ہیں ، البتہ اگر کوئی فریق یہ کہتا ہے کہ جو حقائق ذکر کئے گئے ہیں وہ درست نہیں تو اس فریق پر یہ جوابات لاگو نہ ہوں گے ۔

2 ۔ آپ کے مطالبے پر سب سوالات کے جوابات تو لکھ دیئے گئے مگر ایک بات گوش گذار کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ مسائل کاحل اورجھگڑے کوختم کرنے کاطریقہ اپنے حقوق کے مطالبے اوران پر اصرار اوراپنے آپ کو ہر صورت صحیح باور کرنے میں نہیں ہے بلکہ جھگڑے کاحل اپنے حقوق سے کچھ نہ کچھ دستبرداری اوردرگزر میں ہے ۔ چنانچہ اس معاملے کو مزید عدالتی یا فتاوی کے مراحل میں ڈالنے کے بجائے سارے شرکاء مل بیٹھ کرباہم صلح کے کسی فارمولے پر عمل کریں ۔ قرآن پاک میں ہے ’’والصلح خیر‘‘ترجمہ :صلح بہت اچھی چیز ہے، اورسرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

من ترک المراء وهو محق في ذلک بني الله له بيتا في وسط الجنةومن ترک المراء وهو غير محق بني الله له بيتا في ربض الجنة

ترجمہ:جس شخص نے حق پرہوتے ہوئے جھگڑاچھوڑا اللہ اس کے لیے جنت کے بیچ میں گھربنائے گا اورجس شخص نے ناحق پر ہوتے ہوئے جھگڑا چھوڑا اللہ اس کے لیے جنت کے کنارے میں گھر بنائے گا‘‘

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved