• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹے بیٹیوں میں زندگی میں تقسیم میراث پر سوال

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

میرے والد صاحب حیات ہیں، ہم دو بھائی اور ہماری دو بہنیں ہیں۔ والد صاحب کے پاس 2010ء میں ایک پلاٹ اور ایک عدد گھر تھا۔ والد صاحب نے پلاٹ کو مبلغ 14 لاکھ (1400000) روپے میں بیچ کر دونوں بیٹیوں کو سات سات لاکھ روپے ان کے شرعی حصہ کے طور پردے دیے۔ اب میرے والد صاحب کے نام ایک عدد گھر رہ گیا تھا، اس کے بارے میں میرے والد صاحب کی خواہش تھی کہ یہ گھر میں اور میرا بھائی جائیداد کے حصے کے طور پر رکھ لیں، اس وقت اس گھر کی قیمت تقریباً ایک کروڑ (10000000) روپے تھی۔ اس طرح گھر اور پلاٹ کی کل قیمت ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے بنتی تھی۔

اس طرح والد صاحب نے ہمیں کہہ بھی دیا کہ تمہاری بہنوں کو جائیداد میں سے حصہ دے دیا ہے اور یہ گھر اب تم دونوں بھائی آپس میں بانٹ لینا۔ اب گھر کا نیچے والا پورشن میرے استعمال میں تھا اور اوپر والا پورشن دوسرے بھائی نے مجھے کرائے پر دیا ہوا تھا جس کا کرایہ میں بھائی کو سات آٹھ سال دیتا رہا۔

اب بہنوں کی طرف سے حصوں میں برابری کی بات سنی اور میں نے بھی کسی سے پوچھ گچھ کر کے معلومات لی کہ اگر والد حیات ہو تو تمام بہن بھائیوں کو جائیداد کا حصہ برابر برابر تقسیم  ہو گا۔ بھائی کا حصہ بھی میرے استعمال میں تھا، اب میں نے اور میرے بھائی نے 2014ء میں گھر کی قیمت لگوائی تو اس کی قیمت ایک کروڑ چالیس لاکھ (14000000) روپے لگائی گئی، تو میں نے ایک دو سال میں ستر لاکھ (7000000) روپے بھائی کو اس کا حصہ ادا کر دیا۔ اس کے بعد 2019ء میں یہ گھر میں نے ایک کروڑ پچاس لاکھ (15000000) روپے میں بیچ دیا۔ لیکن اب میں اس سوچ میں گم رہتا ہوں کہ میری بہن سوچ رہی ہو گی کہ ہمیں ہمارا پورا حصہ نہیں دیا گیا۔

حیات ہونے کی صورت میں ویسے تو والد کی مرضی ہے کہ وہ بچوں میں اپنی مرضی سے جائیداد تقسیم کر سکے لیکن میں نے سنا ہے کہ اصولی طور پر برابر کا حصہ دیا جانا چاہیے۔ اب اس صورت حال میں میں چاہتا ہوں کہ بہنوں کو بھی برابر حصہ دیا جائے۔ اس کے لیے میں نے ابھی بھائی سے بات نہیں کی، میں چاہتا ہوں کہ جس وقت والد صاحب نے جائیداد تقسیم کی تھی اس وقت کے مطابق قیمت مبلغ ایک کروڑ پندرہ لاکھ (11500000) روپے کو چار برابر حصوں میں تقسیم کر کے حساب برابر کر دیا جائے۔ اور بہنوں کے نکلنے والے حصے میں سے پہلے سے دی گئی سات لاکھ کی رقم کو نکال کر بقایا حق ادا کر دیا جائے۔ بھائی کو اس بارے میں اعتماد میں لوں گا کہ آپ بھی بہنوں کو مزید حصہ دے دیں۔

تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے، کیا یہ کرنا ضروری نہیں  بھی ہے؟ یا بہنوں کی خواہش پر ان کو مزید حصہ دے دیا جائے؟ اور کیا برابر برابر تقسیم کر دی جائے؟ یا دو ایک کی تقسیم کے مطابق حصے بنا دیے جائیں؟

 

وضاحت مطلوب ہے:

1۔ کیا بہنوں کو پتہ  تھا کہ مکان کی قیمت اس وقت ایک کروڑ روپے تھی؟

2۔ کیا بہنیں سات سات لاکھ روپیہ لے کر مکان میں سے اپنا حصہ نہ لینے پر رضا مند تھیں؟

3۔ والد کے اس طرح تقسیم کرنے کی کیا وجہ تھی کہ بیٹیوں کو کل چودہ لاکھ روپے دیے اور بیٹوں کو ایک کروڑ کی مالیت کا مکان دیا؟

جواب وضاحت:

بہنوں کو مکان کی قیمت کا اندازہ ہی ہو شاید، ہمارا بھی اندازہ ایک کروڑ کا نہیں تھا، 70 یا 80 لاکھ کا ہی ہے اور تھا۔ یہ ایک کروڑ والی بات تو زیادہ پر رکھ کر بتا دی ہے۔ جب بہنوں کو حصہ دیا گیا تھا تو اس وقت تو بظاہر رضا مند ہی تھیں، اور ظاہری بات ہے دل کو کون دیکھ سکتا ہے، اور بعد میں ایک دو دفعہ ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے دل میں بھی آیا اور والد صاحب نے بھی یہی کہا تھا ہم نے کچھ جہیز دیا ہے، مکان اتنے کا نہیں ہے تو کچھ کر کے انہوں نے دو ایک کی تقسیم کے اعتبار سے کر دیا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں والد نے آپ کی بہنوں کو سات سات لاکھ روپے دیے جبکہ آپ دونوں بھائیوں کو ایک کروڑ روپے کی مالیت کے لگ بھگ کا مکان دیا جس کے نتیجے میں آپ دونوں بھائیوں کو تقریباً  50- 50 لاکھ روپے کے لگ بھگ ملے۔ والد صاحب کے لیے کسی معقول وجہ کے بغیر بیٹوں بیٹیوں میں اتنا فرق جائز نہ تھا۔ جہیز والی بات اتنی معقول نہیں۔ لہذا والد صاحب کو یا آپ بھائیوں کو چاہیے  کہ وہ اس بڑے فرق کو ختم کریں اور بہنوں کو کم از کم اتنا دیں کہ جو سات سات لاکھ روپے ان کو دیے تھے ان سمیت رقم پچیس پچیس لاکھ کے لگ بھگ ہو جائے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved