• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرحوم کی زندگی میں جووارث وفات پاجائےاس کامیراث میں حصہ نہیں

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ

مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری والدہ محترمہ کا 2006ء میں انتقال ہوا۔ والدہ  کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک بیٹے کا انتقال والدہ کی زندگی ہی میں 1987ء میں ہو گیا، جس نے اپنے پیچھے ایک بیوہ اور دو بیٹے چھوڑے۔

مرحومہ کی وراثت 5 کنال زمین ہے، والدہ کی وفات کے وقت والدہ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں اور والدہ سے پہلے انتقال کرنے والے بیٹے کی ایک بیوہ اور دو بیٹے یعنی والدہ کے پوتے موجود تھے۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ  والدہ کی وراثت کس طرح تقسیم ہو گی؟ آیا کہ والدہ کی وراثت ان کے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں میں تقسیم ہو گی یا والدہ سے پہلے مرنے والے بیٹے کے دو بیٹوں اور ایک بیوہ کو بھی والدہ کی وراثت سے حصہ ملے گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں والدہ کی وراثت صرف ان کے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں میں تقسیم ہو گی۔ والدہ کی زندگی میں فوت ہونے والے بیٹے کی بیوہ اور ان کے دو بیٹوں کا مرحومہ کی وراثت میں حصہ نہیں۔ لیکن اگر  ورثاء اپنی خوشی سے ان کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

مذکورہ صورت میں 5 کنال (یعنی 100 مرلوں) میں سے 28.571 مرلے مرحومہ کے بیٹوں میں سےہر ایک بیٹے کو اور 14.285 مرلے تین بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

7————————                                                                          5 کنال (یعنی 100 مرلے)

2 بیٹے———————                                                         3 بیٹیاں

2+2                                                        1+1+1

28.571 مرلے فی کس                              —————-14.285 مرلے فی کس

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved