• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نامعلوم ورثاء کے حصوں کو صدقہ کرنا یا کسی ایک وارث کو دینے کا حکم

استفتاء

میرے والد کی 2بیویاں تھیں۔ پہلی بیوی فوت ہونے کے بعد انہوں نے دوسری شادی کی تھی۔ والد صاحب کا انتقال 1978میں ہوگیا تھا۔ دوسری بیوی کا انتقال 2018 میں ہوا۔ پہلی بیوی کی اولاد سے کچھ لوگوں نے وراثتی حصہ لے لیا تھا اور کچھ کو نہیں دیا گیا تھا، اب دوسری بیوی کی اولاد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اُن کو حصہ دیا جائے۔ جن کو حصہ دینا چاہتے ہیں، اُن میں سے 2بھائی کافی عرصہ پہلے انتقال کر چکے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اُن کی تمام اولاد تک رسائی مشکل نظر آتی ہے۔ اگر ایک دو کو ڈھونڈ کر اُن کو حصہ دے دیا جائے تو کوئی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ یا لا پرواہی تو نہ ہوگی؟ہم یہ  چاہتے ہیں کہ کوئی شرعی اعتراض باقی نہ رہے۔ جائیداد 2000ء میں تقریباً 10لاکھ کی فروخت کی گئی تھی۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ کیاہم ان کا حصہ صدقہ کر سکتے ہیں؟ مہربانی فرماکر راہنمائی فرمائیں۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: 1) کیا بھائیوں کے تمام وارثوں کا پتا لگانا ممکن نہیں؟

2)آج کل نادرا سے ہر کسی کا پورا ڈیٹا مل سکتا ہے یعنی بیوی، بچوں کا معلوم ہو سکتا ہے، کیا آپ نادرا کے ذریعہ سے بھائی کے  بیوی، بچوں کا پتا معلوم نہیں کر سکتے؟

جواب وضاحت:1)ایک  بھائی کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے سے کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی ہے،  ان کے ذریعے باقی بچوں کا بھی پتا لگ سکتا ہے اور ہم ان سے باقیوں کا پتا کروائیں گے بھی۔ کیا ان کا پتا معلوم کرنے کے بعد ان تک ان  کا حصہ پہنچانا ضروری ہوگا یا ان کی اجازت سے کسی ایک وارث کو ان کا حصہ دے سکتے ہیں؟

اس دوران ہمیں اصل مسئلہ یہ پیش آسکتا ہے کہ ہمارے جو دوسرے بھائی ہیں ان کی دو شادیاں تھیں۔ ایک بیوی اور ان کے بجوں سے تو ہمارا تعلق ہے۔ لیکن دوسری بیوی چونکہ دوسرے شہر سے تھی اس لیے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ہم بھائی کی پہلی بیوی اور بچوں سے دوسری بیوی اور ان کے بچوں کا معلوم کریں گے لیکن اگر پہلی بیوی اور بچوں کو خود دوسری بیوی اور ان کے بچوں کے بارے میں کچھ علم نہ ہو یا کسی وجہ سے ہمیں ان کا پتہ نہ بتائیں تو ہمارے لیے کیا حکم ہوگا؟

2)دوسرے بھائی کا شناختی کارڈ پرانے طرز کا بنا ہوا ہے، نادرا کا نہیں بنا ہوا۔ پھر بھی نادرا  جا کر معلوم کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جن فوت شدہ بھائیوں کا حصہ آپ لوگوں نے ادا نہیں کیا، ان بھائیوں کے تمام وارثوں تک ان کا حصہ پہنچانا آپ لوگوں کے ذمے ہے۔ لہٰذا فوت شدہ  بھائیوں کے تمام ورثاء کا پتہ معلوم کرکے ان تک ان کا حصہ پہنچانا ضروری ہے اور آج کل کے زمانے میں بینک اکاؤنٹ اور موبائل اکاؤنٹ کی موجودگی  میں کہیں پر کسی کو پیسے پہنچانے میں کوئی مشکل نہیں۔ ہاں اگر کوئی وارث خود یہ اجازت دے کہ میرا حصہ فلاں کو دے دیں تو دے سکتے ہیں، مذکورہ صورت میں بھائیوں کے ایک دو وارثوں کا پتہ معلوم کرکے انہی کو باقیوں کا حصہ(ان کی اجازت اور ان کو بتائے بغیر) دینا جائز نہ ہوگا۔

نوٹ: اگر آپ کے حتیٰ الامکان کوشش کے باوجود کسی وارث کا پتہ معلوم نہ ہوسکے تو دوبارہ پوچھ لیا جائے ۔

امداد الفتاوی(3/484) میں ہے:سوال: ہندوستان کے عام رواج کے موافق زید اور اس کے تمام ورثہ ایک ہی گھر میں رہتے سہتے کھاتے پیتے ہیں، عمرو نے زید سے کوئی چیز خریدی اور ابھی قیمت نہیں دی تھی کہ زید کا انتقال ہو گیا، انتقال کے بعد عمرو نے قیمت ورثہ زید میں ایک وارث کو دے دی ، ہر ہر وارث کو ان کے حصوں کے موافق نہیں دی، تو کیا عمرو اپنے بار سے سبکدوش نہیں ہوا؟ اور کیا دوبارہ ہر وارث کو ان کے حصوں کے موافق دینا چاہیئے۔ زید کے ورثاء اب تک بدستور سابق ایک ہی گھر میں رہتے سہتے، کھاتے پیتے ہیں اور ان کے اموال باہم مشترک ہیں اور زید کے بعد اسی اشتراک اور الگ گھر میں ہونے کے سبب زید کا کچھ ترکہ تقسیم نہیں ہوا اور نہ آئندہ  ہونے کی امید ہے۔الجواب: یہ شرکت املاک ہے، شرکت عقد نہیں، جس میں ہر شریک دوسرے شریک کا وکیل ہوتا ہے، پس جب شرکت املاک میں وکالت نہیں تو ایک وارث کو دینے سے دوسرے ورثاء کا مطالبہ اپنے اپنے حصہ کا باقی رہے گا، البتہ اگر سب مل کر اس وارث کو اذن دے دیں یا میت اس وارث کو اپنا وصی بنا گیا تھا، تب البتہ اس کا قبضہ سب کا قبضہ ہے۔ البتہ اگر دوسرے ورثہ عمرو سے مطالبہ کریں تو عمرو اس وارث سے باستثناء اس کے حصے کے بقیہ رقم واپس لے سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved