استفتاء
مسئلہ یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لیے جامع مسجد کی پہلی اذان کے بعد خطیب صاحب خطبہ اور نماز جمعہ پڑھانے کی ہی نیت سے آتے ہیں لوگ بھی خطبہ سننےکی غرض سے مسجد میں جمع ہوتے ہیں، خطیب صاحب منبر پر تشریف لاتے ہیں تو سب سے پہلے عربی کلمات میں حمد و ثناء، شہادة توحید و رسالت صلاة والسلام علے النبی ﷺ، صحابہ کرام و دیگر تمام مسلمانوں کے لیے دعا اور موضوع خطاب سے متعلق قرآن کریم سے چند آیات کی تلاوت فرماتے ہیں اس کے بعد انہیں آیات سے متعلق تفسیر اور احادیث کی روشنی میں اردو میں خطاب کرتے ہیں، جیسا کہ ہندو پاک میں عام معمول ہے، پھر عربی میں بھی دو مستقل خطبے اذان ثانی کے بعد دیتے ہیں، پھر پڑھاتےہیں۔
خطبہ کی شرائط سنن ومستحبات کا مختلف عربی فتاوی شامیہ، بحرالرائق، طحطاوی علے مراقی الفلاح، بدائع الصنائع، خلاصتہ الفتاویٰ، ہندیہ، محیط برہانی، اور ان کے علاوہ بھی کئی فتاویٰ کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دو خطبوں سے پہلے یہ عربی اردو ملا خطبے کا بھی وہی حکم ہے جو عربی خطبہ کا ہے اس پر بھی خطبہ کی تعریف صادق آتی ہے۔ چنانچہ کوئی شخص صرف اسی پر اکتفاء کر لے تو شرط کے درجہ میں نماز جمعہ کی صحت کے لیے کافی ہے اگر چہ مکروہ ہے اور اس کی اجازت نہیں ہے۔
لہذا اس دوران بھی نوافل پڑھنا منع ہے اور اس کی اجازت دینے میں شرائط وارکان کے وجود پر مشتمل عمل کے وجود کو تسلیم نہ کرنا لازم آتا ہے جو کہ فقہاء کرام کی تعریفات وتشریحات کے انکار کو مستلزم ہے۔
اس لیے کہ فقہاء کرام کی عبارات میں اتفاقی قیودات نہیں ہوتیں، ان کی تعریفات جامع اور مانع ہوتی ہیں۔ چنانچہ ان کی عبارات کا مفہوم مخالف بھی معتبر مانا جاتاہے ۔ ایسے ہی ایک مسئلہ کے متعلق امام شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: و إلا لزم الحكم ببطلان الأولى بترك ماليس بركن و لا شرط كما مر عن الفتح.(65/ 2 )۔
ذیل میں فقہی عبارات سے حوالے ملاحظہ ہوں استشہاد صحیح ہو تو براہ کرم تائید فرمائیں اور اگر ہم نے صحیح نہ سمجھا ہو تو اصلاح فرمائیں نوازش ہوگی۔
خطبہ کی تعریف وحقیقت واضح کرتے ہوئے” مراقی الفلاح” اور اس کی شرح” حاشیہ طحطاوی " میں لکھتے ہیں:
( والرابع الخطبة و لو بالفارسية من قادر على العربية ويشترط لصحة الخطبة فعلها قبلها … و في الطحطاوي على مراقي الفلاح ( و الرابع الخطبة فعلة بمعنى مفعولة فهي اسم لما يخطب به غاية من الخطب وهو في الأسل كلام بين اثنين قهستاني عن الأزاهر و هي بالضم في المواعظة الجمع خطب و بالكسر طلب التزوج.(509، قدیمی )
كذا في جامع الرموز للقهستاني (264/ 1 ) و كذا في قواعد الفقه ( 276)
و في المحيط البرهاني: و لأن مايشبه الأمر بالمعروف خطبة من حيث المعنى و إن لم يكن خطبة من حيث النظم لأن الخطبة في الحقيقة وعظ و أمر بالمعروف. ( 459/ 2)
خطبہ کی شرائط نہایت جامع انداز میں ” مراقی الفلاح "اور اس کی شرح "حاشیہ طحطاوی” میں بیان فرماتے ہیں:
فهذه خمس شروط أو ست لصحة الخطبة فاليتنبه، قال الطحطاوي (۱) الأول أن تكون قبل الصلاة، (۲) والثاني أن تكون بقصد الخطبة، (۳) الثالث أن تكون في الوقت، (٤) والرابع أن يحضرها واحد، (۵) الخامس أن يكون ذلك الواح ممن تنعقد بهم الجمعة، (٦) السادس عدم الفصل بين الخطبة والصلاة بقاطع.( مراقی الفلاح، 510 )
اردو کے مذکورہ بیان پر فقہاء کرام کی وضاحت کے مطابق پوری طرح تعریف صادق آتی ہے، اس لیے کہ یہ ذکر تو ہے ہی اس کے علاوہ خطبہ کی تمام شرائط پر بھی مشتمل ہے اور یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ خطبہ کا عربی میں ہونا کوئی شرط نہیں ہے تو وجوب استماع کے لیے معلوم نہیں کونسی چیز مانع ہے؟ جبکہ احتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جب مبیح اور محرم دونوں دلائل متوجہ ہوں تو محرم کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اور خطبہ کی سنن کو تفصیلاً شمار فرمایا:
( و سنن الخطبة ثمانية عشر شيئاً بل يزاد عليها … منها الطهارة… و الجلوس على المنبر قبل الشروع في الخطبة والأذان بين يديه كالإقامة ثم قيامه والسيف بيساره و بدونه في بلدة فتحت صلحاً و استقبال القوم بوجهه و بدائته بحمد الله والثناء عليه بما هو أهله و الشهادتان و صلاة على النبي صلى الله عليه و على آله وسلم والعظة و التذكير و قرائة آية من القرآن و الجلوس بين الخطبتين . (مراقي الفلاح، 514/ 1) و كذا في جامع الرموز للقهستاني (269/1 ) و كذا في الفقه الإسلامي و أدلته (1311/ 2) كذا في خلاصه الفتاوى (205/ 1)
خطبہ كا اصل مقصد یعنی وعظ و تعلیم تو اس خطاب سے حاصل ہو رہا ہے۔ "كما في الدر، 155/ 1: لأن الخطبة شرعت للتعليم”. اور رکن وشرائط کے علاوہ کئی سنتوں پر بھی مشتمل ہے، لیکن تمام تر سنتوں کا امتثال چونکہ عربی خطبہ میں ہی ہوتا ہے اور اس کی اپنی اہمیت ہے اس لیے عربی خطبے مستقل دیئے جاتے ہیں تاہم شرط کے درجہ میں اس سے خطبہ کی ضرورت بلاشبہ پوری ہوتی ہے تو اس دوران نماز و تلاوت وغیرہ کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ چنانچہ علامہ شامی رحمہ اللہ ایک مسئلہ کے ضمن میں بیان فرماتےہیں:
قال و الطهارة سنة عندنا لا شرط حتى أن الإمام إذا خطب جنباً أو محدثاً فإنه يعتبر شرطاً لجواز الجمعة قال المحشي تحت هذا القول: قوله ( فإنه يعتبر شرطاً أي ما فعله الإمام من الخطبة جنباً أو محدثاً يعتبر و يعتد به من حيث كونه شرطاً لصحة الجمعة بمعنى أنه يجزي و يكفي وإن كان مرتكباً لمحرم لو كان بلا عذر. (شامی 150/ 2 )
ان تمام دلائل سے ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ خطاب بھی خطبہ کے حکم میں ہے اور اس دوران استماع کے خلاف کوئی بھی عمل جائز نہیں اگر چہ عربی خطبہ کی طرح تمام صفات پر مشتمل نہ ہونے کی وجہ سے بدرجہ اتم نہیں ہے لیکن خطبہ ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ کسی عمل کو فقہاء کرام کی تعریفات اور توضیحات پر ہی پرکھا جائے گا۔
عربی اور اس خطبہ کے درمیان فرق یہ ہے کہ اس کے شروع کا حصہ تو عربی ہے لیکن بعد کا حصہ زیادہ اردو پر مشتمل ہے، دوسرا فرق یہ ہے کہ عربی خطبوں کے لیے اذان ثانی دی جاتی ہے، تیسرا یہ کہ یہ خطبہ عموماً خطیب بیٹھ کر دیتا ہے اور عربی خطبے کھڑے ہو کر، چوتھا یہ کہ عربی خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے خطیب بیٹھ کر دونوں خطبوں کے درمیان فصل کرتا ہے، لیکن یہ تمام صفات ایسی نہیں ہیں کہ جن کی رعایت نہ رکھنے کی وجہ سے خطبہ ہی نہ رہے اور اذان ثانی کو قاطع بھی نہیں قرار دے سکتے۔ چنانچہ عمل قاطع کی وضاحت میں لکھتےہیں:
( و عمل قاطع ) كما إذا جامع ثم اغتسل و أما إذا لم يكن قاطعا كما إذا تذكر فائته و هو في الجمعة فاشتغل بالقضاء أو أفسد الجمعة فاحتاج إلى إعادتها أو افتتح التطوع بعد الخطبة لا تبطل الخطبة بذلك لأنه ليس بعمل قاطع لكن الأولى إعادتها كما في البحر. (510، قدیمی ) كذا في خلاصة الفتاوى (205/ 1)
بالفرض فقہاء کرام کی عبارات میں کوئی جزئیہ ملے جس سے یہ واضح ہو کہ اس کو خطبہ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا حالانکہ کافی تلاش کے باوجود ہماری نظروں سے اب تک ایسا کوئی جزئیہ نہیں گذرا لیکن اصل موقف” کہ اس خطبہ کے دوران حاضرین کے لیے نوافل پڑھنا منع ہے” کے ثبوت کے لیے نبی کریم ﷺ کا ارشاد” عن ابن عمر رضي الله عنه قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل أحدكم المسجد والإمام على المنبر فلا صلاة ولا كلام حتى يفرغ الإمام. (رواه الطبراني بحوالة إعلاء السنن)، و عن أبي هريرة رضي الله عنه خروج الإمام يوم الجمعة يقطع الصلاة و كلامه يقطع الكلام . رواه البيهقي بحوالة إعلاء السنن، 71/2. بھی کافی ہے۔
چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام نکلنے کے ساتھ ہی نماز، ذکر، تلاوت وغیرہ کو منع فرماتےہیں۔ اگرچہ ممبر تک پہنچے نہیں اور خطبہ شروع نہیں کیا:
كما في مراقي الفلاح ( و إذا خرج الإمام فلا صلاة و لا كلام ) وهو قول الإمام رحمة الله عليه لأنه نص النبي صلى الله عليه وسلم.( 518 )
نماز کی ممانعت میں فقہاء کرام نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح دی ہے اور اس کو مفتی بہ قرار دیا ہے:
كمافي الشامي: و أخرج ابن أبي شيبة في مصنفه عن علي و ابن عباس و ابن عمر رضي الله عنهم كانوا يكرهون الصلاة و الكلام بعد خروج الإمام والحاصل أن قول الصحابي حجة يجب تقليده عندنا إذالم ينفه شيء آخر من السنة. (157/ 2)
قال الطحطاوي إذا خرج من حجرته إن كانت و إلا فقيامه للصعود قاطع كما في شرح المجمع فيثبت المنع بمجرد ظهوره و لو قبل صعوده المنبر و قيل إذا صعد و عليه جرى الكمال و الزيلعي و العيني و قال بعد أسطر اختلف المشائخ على قول الإمام في الكلام قبل الخطبة. (مراقي، 519)
اور اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ امام صاحب خطبہ ہی کی غرض سے حجرہ سے نکل آئے ہیں اور اب منبر پر بھی تشریف فرما ہیں لہذا تمام دلائل اس تائید میں ہیں کہ دوران اردو خطبہ نماز، ذکر، تلاوت وغیرہ کو اب مؤخر کریں اور خطبہ کی طرف متوجہ ہوں نوافل تلاوت کے لیے پھر بھی موقع مل سکتا ہے اور یہ موقع خطبہ کے لیے ہے۔ نیز تمام فتاوی میں یہ حکم واضح فرما دیا ہے کہ وجوب استماع کا یہ حکم جمعہ اور عیدین کے خطبوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ خطبے سننا واجب ہے:
و فيها: كذا استماع سائر الخطب كخطبة النكاح والختم. ( مراقي الفلاح، 519 )
و في قواعد الفقه: و الخطب كثيرة كخطبة الجمعة والعيدين و الاستسقاء و الكسوف و النكاح و ختم القرآن و غير ذلك و يجب في الجميع الاستماع كذا في الدرر.(278 ) كذا في رد المحتار (159/2 )
و في التفسير المظهري: قا ل عمر بن عبد العزيز الإنصات لقول كل واعظ.(450/ 3)
امام بخاری اورا سی طرح دیگر محدثین اس موضوع پر مستقل ابواب قائم کیے ہیں:
باب إصغاء الجليس لحديث جليسه الذي ليس بحرام و استنصات العالم والواعظ حاضري مجلسه. ( دلیل الفالحین، 147/ 3 )
چند شبہات اور ان کے جوابات
شبہ (۱): حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسی طرح حضرت عبداللہ ابن بسر رضی اللہ عنہ جمعہ کے روز منبر کے ساتھ کھڑے ہو کر احادیث بیان فرماتے تھے۔
لما في المستدرك على الصحيحين عن محمد عن أبيه قال رأيت أبا هريرة رضي الله عنه يخرج يوم الجمعة فيقبض على رمانتي المنبر قائماً و يقول حدثنا أبو القاسم رسول الله صلى الله عليه وسلم الصادق فلا يزال يحدث حتى إذا سمع فتح باب المقصود لخروج الإمام لصلاة جلس.(586/ 3) و فيه أيضاً: عن أبي الزهراوية قال كنت جالساً مع عبد الله بن بسر يوم الجمعة فما زال يحدثنا حتى خرج الإمام.(425/ 1 )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل خطبہ سے پہلے احادیث بیان کرنا کوئی خطبہ نہیں ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ ابن بسر رضی اللہ عنہ خطیب کے نکلنے سے پہلے تک احادیث بیان فرماتے تھے البتہ خطیب کے نکلنے کے ساتھ ہی درس ختم کرتے تھے اور بیٹھ جاتے تھے۔
جواب: مذکورہ دونوں حوالوں میں اس موقف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ اس سے مزید تائید مل رہی ہے چنانچہ صراحت ہے کہ خطیب کے نکلتے ہی درس ختم کرتے تھے اور اس خطاب کو جمعہ کا خطبہ اس لیے بھی نہیں کہ سکتے کہ اس میں واضح ہے کہ خطیب صاحب تو اور ہوتے تھے ظاہر بات ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خطبہ جمعہ کی نیت سے یہ خطبہ نہیں دیتے تھے جوکہ خطبہ کے لیے شرط ہے ، اس میں اصل موقف کے خلاف کہ اس دوران نماز پڑھنا منع ہے یا یہ کہ دو خطبوں سے پہلے خود خطیب صاحب اگر وعظ کریں تو وہ خطبہ نہیں کہلائے گا؟ اس سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام صاحب سے پہلے بھی کوئی دوسرا شخص درس یا وعظ کے لیے خطاب کرے تو یہ جائز ہے۔
شبہ (۲): عربی خطبہ کے لیے اذان دی جاتی ہے اور یہ عربی اردو ملا خطبہ اذان اول کے بعد شروع ہوتا ہے اگر اس کو خطبہ کا حکم دیں تو خطبوں کے درمیان اذان دینا لازم آتا ہے۔
جواب: اذان ثانی کوئی شرط نہیں ہے جس کے انتفاء سے حکم بھی منتفی ہو اور خطبہ کے بعد یا درمیان میں دینے سے کوئی عمل قاطع بھی نہیں ہے جیسا کہ حوالوں سے واضح ہے۔
شبہ(۳): اس طرح تو تین خطبے ہو جائیں گے؟
جواب: دو خطبے سنت ہیں ایک سے بھی شرط کے درجہ میں ضرورت پوری ہو جاتی ہے لیکن دو سے زیادہ خطبے دینے سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ خطبہ کو خطبہ نہ قرار دیں۔ اور معذرت کے ساتھ کہتے ہیں کہ علماء کرام صرف دو خطبوں پر ہی اکتفاء کرتے اگر پاک و ہند کے عوام کی ضرورت سامنے نہ ہوتی۔
بدقسمتی سے اپنی مذہبی زبان” عربی” کچھ نہیں جانتے اور خطبے جس کا اصل مقصد وعظ و نصیحت اور تعلیم ہے اگر صرف عربی خطبہ ہی رہے تو لوگ بالکل اصل مقصد سے محروم رہتے ہیں اسی ضرورت کے تحت تو یہ اردو بیان رائج ہوا ہے ورنہ عربی جیسے جامع خطبوں سے پورا استفادہ کرنے کی صورت میں اس کی کیا ضرورت تھی؟
علماء کرام سے گذارش ہے کہ اس مسئلہ کی اہمیت سامنے رکھتے ہوئے اپنی تحقیق سے فیض یاب فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں اردو میں بیان کو جمعہ کے خطبہ کا حصہ قرار دینا درست نہیں اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ تعامل کے خلاف ہے۔
۲۔ یا اذان ثانی پہلے دیں گے جیسے حرم میں معمول ہے یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس صورت میں اذان اول کے بعد تیاری کا وقت تھوڑا رہ جاتا ہے۔
۳۔ اذان ثانی کو یا تو موقوف کر دیں گے یا وہ درمیان میں آئے گی۔
۴۔ خطبہ تین حصوں پر مشتمل ہوگا۔
۵۔ لوگوں میں انتشار کا باعث ہوگا۔
۶۔ بہت سے لوگ خطبہ شروع ہونے کے بعد تاخیر سے آنے کے مرتکب قرار پائیں گے اور بعد میں آنے والوں کی سنتیں بھی فوت ہوں گی۔ ہاں اگر یہ مراد ہے کہ اردو بیان کا احترام کیا جائے تو اس مقصد میں اتفاق ہے اور اس کا حل یہ ہے:
۱۔ لوگوں کو اس کے آداب سماع سے آگاہ کیا جائے۔
۲۔ اردو بیان یا تو سرے سے ہی موقوف کر دیا جائے یا اس کو جمعہ کی نماز کے بعد کیا جائے۔
۳۔ امام بیان کے لیے منبر پر نہ بیٹھے بلکہ ایک طرف کو بیٹھ کر بیان کرے کیونکہ حدیث میں امام کے نکلنے سے مراد عربی خطبہ کے لیے نکلتا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved