• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میراث اور وصیت کی تقسیم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

(۱)کیا والدصاحب کی وصیت کے مطابق ان کے بینک اکاؤنٹ کی رقم اور گھر میں رکھا ہوا کیش بہن بھائی میں مساوی تقسیم ہوگی؟یا شرع کے مطابق تقسیم ہوگی ؟یعنی 1 حصہ بہن اور 2 حصے بھائی کو۔

(۲)کیا مرحوم کو اپنے  والد صاحب کی جائیداد سے ملی ہوئی رقم کی تقسیم بھی ایسے ہی ہوگی؟

(۳) مرحوم نے اپنا مکان آدھا اپنے نام اور آدھا اپنی بیوی کے نام رکھا ہوا ہے  ماں اور باپ کے حصوں کی تقسیم کے بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں۔

(۴)وصیت  میں مرحوم کی ہر چیز میں 1/3حصہ  مسجد کے نام ہے اور باقی حصہ بہن اور بھائی(بیٹا، بیٹی) میں مساوی تقسیم کا لکھا ہوا ہے،کونسی چیز مساوی تقسیم ہوگی اور کونسی شرع کے مطابق؟

(۵) لکھی ہوئی وصیت کی کیا حیثیت ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ

(۱)وصیت نامہ کی تحریر مہیا کریں ۔(۲) بیوی کے نام آدھا مکان کس وجہ سے کیا ہے ؟ کیا ان کو ہدیہ کردیا ہے یا کسی اور وجہ سے ؟ بیوی کی تصدیق سے وضاحت کی جائے ۔(۳) تین نمبر سوال میں مذکور ہے کہ "ماں اور باپ کے حصوں کی تقسیم میں بھی رہنمائی فرمائیں ” اس کیا مراد ہے؟ (۴)مرحوم کے والدین فوت ہوگئے ہیں یا زندہ ہیں؟(۵)مرحوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کی تفصیل کیا ہے؟ یعنی کتنے بیٹے اور کےکتنی بیٹیاں ہیں؟

جواب وضاحت:

(۱)وصیت نامہ برائے مکان نمبر **گلی نمبر **شاد باغ لاہور

میں مسمی** بٹ ولد محمد **بٹ مکان نمبر**گلی نمبر **میں نصف حصہ کا مالک ہوں ، اور نصف حصہ میری بیگم *** کے نام ہے ۔ میں اپنے حصہ کی وصیت کرتا ہوں،اس کی مالیت کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے 1/3حصہ کی مالیت حافظ** صاحب کی مسجد اور مدرسے کو دی جائے ، باقی 2/3حصہ کو برابر تقسیم کرکے ** اور ***کو دی جائے۔

یہ وصیت اشٹام پیپر پر لکھوائی جائے یہ کام عدیل احمد کے ذمے ہے۔

(۲)وصیت نامہ برائے بینک اکاؤنٹ

آج مورخہ 1-4-2020کو میں محم** بٹ اپنے بینک اکاؤنٹ نمب****-9.  اپنے ذاتی حالات دیکھ کر لکھ رہا ہوں۔ اگر میں اپنی زندگی میں اس اکاؤنٹ کی رقم کو تقسیم نہ کرسکا تو میری زندگی کے بعد اس رقم کو اس طرح تقسیم کردیا جائےکہ 1/3حصہ کسی مسجد و مدرسہ کو دیا جائے،2/3 حصہ کو *** اور نادیہ ***بٹ اگر بیوی زندہ ہو تو ان میں برابر تقسیم کردیا جائے ورنہ دونوں بھائی ** اور اس کی بہن **میں برابر تقسیم کردیا جائے ۔

یہ وصیت نامہ اشٹام پیپر پر لکھوایا جائے یہ کام **احمد کے ذمے ہے۔

(۳)وصیت نامہ برائے مکان نمبر **شاد باغ :

میں محمد **بٹ ولد محمد **بٹ ،مکان نمبر **شادباغ کے حصہ وراثت کے متعلق وصیت کرتا ہوں کہ میرے شرعی حصے سے 1/3حصہ کی رقم حافظ **صاحب کی مسجد و مدرسہ میں دے دی جائے

اگر میری بیوی زندہ ہو تو بقایا 2/3حصہ کو میری بیوی(**) +**احمد+**میں مساوی تقسیم کردی جائے ۔آج مورخہ 31مارچ 2020کو میں  اپنے ذاتی حالات کو دیکھ کر تحریر کر رہا ہوں ،یہ تحریر اشٹام پیپر پر لکھوائی جائے ۔ یہ کام **احمد کے ذمے ہے۔

والدہ کا وصیت نامہ:

میں مسمی** بٹ آج مورخہ 1-4-20کو اپنی زندگی اور بیماری کے حالات کو دیکھ کر مکان نمبر **گلی نمبر**نیو شاد باغ لاہور جس کی میں نصف حصہ کی مالک ہوں تحریر کر رہی ہوں ، میں نے اپنے حصے کو اپنے بیٹے **احمد ولد محمد **اور *بنت محمد **بٹ کو مساوی حصہ داری کا اختیار دیتی ہوں تاکہ میری زندگی کے بعد کوئی شرعی یا دنیاوی تنازع نہ پیدا ہو۔

نوٹ: میں چونکہ فالج کی مریضہ ہوں اور میرے جسم کا دایاں حصہ کام نہیں کر رہا اس لئے دستخط کرنے معذور ہوں،  نشان انگوٹھا لگارہی ہوں۔

(۲)بیوی بھی شوہر کے 15دن بعد فوت ہوگئی ہے، میں ان کی بیٹی ہوں اور میرے سامنے میرے والد صاحب نے یہ کہا تھا کہ آدھا حصہ میری بیوی کا ہے کوئی تفصیل نہیں کی تھی۔(۳) گھر کے دو پورشن ہیں ، نیچے والا پورشن والد صاحب کے نام اور اوپر والا والدہ صاحبہ کے نام تھا تو پوچھنا یہ ہے کہ جس طرح نیچے والا پورشن جو والد صاحب کے نام ہےوہ تو تقسیم ہوگا میرے اوربھائی کے درمیان۔ کیا اوپر والا پورشن جو والدہ کے نام تھا وہ بھی ہم دونوں میں تقسیم ہوگا یا نہیں؟(۴)فوت ہوگئے ہیں۔

(۵)ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱)پہلے وصیت کے مطابق بینک اکاؤنٹ کی رقم میں سے 1/3حصہ مسجد و مدرسہ کے لئے نکالنے کے بعد باقی رقم کی تقسیم کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر بیٹا والد کی وصیت کے مطابق برابر تقسیم پر راضی ہو تو برابر تقسیم بھی درست ہے،لیکن اگر بیٹا اس کے لئے تیار نہ ہو تو پھر(  1/3حصہ نکال کر باقی) اکاؤنٹ کی رقم کی تقسیم شرع کے مطابق ہوگی یعنی 1حصہ بہن کو اور 2حصے بھائی کو ملیں گے۔

نوٹ:وصیت نامہ میں صرف اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی رقم کا ذکر ہے ،گھر میں رکھی ہوئی رقم کے بارے میں ذکر نہیں لہذا اکاؤنٹ کی رقم سے تو وصیت کے مطابق 1/3حصہ مسجد ومدرسہ کے لئے نکالنا ضروری ہوگااور گھر میں رکھی ہوئی رقم میں سے 1/3حصہ نکالنا ضروری نہیں ۔

(۲)اس کی تقسیم بھی نمبر 1کے مطابق ہوگی ۔

(۳)اس میں بھی والد کے حصہ یعنی نیچے والے پورشن  کی تقسیم نمبر1کے مطابق ہوگی یعنی پہلے 1/3حصہ وصیت کے مطابق نکالنے کے بعد باقی جیسا کہ اوپرنمبر1میں  ذکر ہوا ہے کہ برابر بھی تقسیم کرسکتے ہیں اگر مرحوم کا بیٹا راضی ہو ورنہ شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی ۔

والدہ کے حصہ یعنی اوپر والے پورشن کی تقسیم اس طرح ہو گی کہ اگر بیٹا راضی ہو تو برابر تقسیم ہوگی ورنہ شریعت کے مطابق ۔

نوٹ :والدہ مکان میں سے آدھے کی مالک تھی اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بیٹی کا کہنا ہے کہ والد نے میرے سامنے کہا تھاکہ آدھا مکان میری بیوی کا ہے ۔اور دوسرا یہ کہ وصیت نامہ میں والد نے بھی تصریح کی ہے کہ میں صرف آدھے مکان کامالک ہوں اس لئے صرف اپنے حصے کی وصیت کرتا ہوں ، اور بیوی کی تحریر میں بھی یہی ہے کہ جو آدھا مکان شوہر نے ان کو دیا ہےاس میں سے اپنے بیٹے اور بیٹی کے لئےبرابر تقسیم کا ذکر ہے۔

(۴)اس کا جواب بھی اوپر کے جوابات میں آگیا ہے۔

(۵)تحریری وصیت معتبر ہے جبکہ موصی نے خود لکھی ہو یا اس کے دستخط  موجود ہوں ۔ اس کی حیثیت وہی ہوگی جو زبانی وصیت کی ہوگی یعنی اس پر عمل ضروری ہوگا ۔

عالمگیری(4/10) میں ہے:ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطلالجوھرۃ النیرۃ(389)میں ہے:( ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة ) يعني بعد موته وهم أصحاء بالغون فإن أجازه بعضهم ولم يجزه بعضهم جاز على المجيز بقدر حصته ويبطل في حق الراد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved