- فتوی نمبر: 5-334
- تاریخ: 31 مارچ 2013
- عنوانات: عبادات
استفتاء
۱۔ تعزیت کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ کن الفاظ سے، کتنی مرتبہ اور کب تک کی جائے؟
۲۔ ہمارے علاقے میں اہل میت دریاں اور چارپائیاں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حقہ، سگریٹ، اخبار وغیرہ میں مشغول ہوتے ہیں۔ تعزیت کے لیے آنے والا کہتا ہے ’’ فاتحہ پڑھیں، یا کلام پڑھیں، یا کلام بخشیں ‘‘تو سارے ہاتھ اٹھا کر کچھ پڑھتے ہیں اور چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں۔ آنے والا اہل میت میں کسی کو مخاطب کرکے کہتا ہے ’’ امر اللہ کا، یا حکم اللہ کا، یا امرربی ‘‘تو وہ جواب میں کہتا ہے ’’ جی مان لیا، یا کہتا ہے کوئی چارہ نہیں ‘‘کچھ دیر بعد اس آنے والے کی تواضع چائے، بسکٹ، بوتل، کھانے وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ سارا دن چلتا ہے اور ہر آنے والا یہی کچھ کہتا ہے اور وہی کچھ جواب میں کہاجاتا ہے۔ کیا اس سے تعزیت کا شرعی حکم پورا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں ایک طریقہ تعزیت یہ بھی ہے کہ جنازہ کے فوراً بعد میت رکھی رہتی ہے سارا مجمع لواحقین سے زبانی تعزیت میں مصروف ہوجاتا ہے جس سے مجمع کی قلت و کثرت کے لحاظ سے بیس منٹ سے ایک گھنٹہ تک کا وقت بھی لگ جاتا ہے اس موقع پر تعزیت کا کیا حکم ہوگا؟ جبکہ جنازہ میں شرکت سے حکم تعزیت تو پورا ہوچکا اور دفن میں تاخیر ہو رہی ہے۔ علاقہ کے اکثر علماء بھی جب ایسے مجمعوں میں جاتے ہیں تو وہ بھی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں جس سے عوام یقین کی حد تک اس عمل کو جائز اور درست سمجھتے ہیں کوئی عالم اس پر روک ٹوک کرے تو دلیل میں علماء کا فعل پیش کرکے معارضہ کرتے ہیں۔ کیا اس شکل کو ایصال ثواب سمجھا جاسکتا ہے؟ جبکہ ایصال ثواب اجتماعی شکل میں بدعت ہے اور اگر یہ تعزیت ہے تو کیا تعزیت میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے سے حکم شرعی پورا ہوجائے گا؟ ایسی صورت میں احقاق حق کے لیے اس کے خلاف کوشش کرنی چاہیے یا عموم بلویٰ سمجھتے ہوئے سکوت اختیار کرنا چاہیے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
تعزیت کا معنی ہے ’’ صبر دلانا ‘‘لہذا تعزیت کرنے والے کو چاہیے کہ صبر و تسلی کے کلمات کہے مثلاً یوں کہے ’’ اللہ تمہیں صبر دے، تمہارے اجر و ثواب کو بڑھائے، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت کرے اور اس کے درجات بلند فرمائے۔ ‘‘ان الفاظ کے علاوہ بھی دوسرے الفاظ کہہ سکتا ہے جن میں صبر کی تلقین ہو۔ فقہاء کرام نے تعزیت کا یہی طریقہ لکھا ہے۔ جیسا کہ شامی میں ہے:
عظم الله أجرك و أحسن عزاءك و غفر لميتك.
تعزیت صرف ایک مرتبہ اور صرف تین دن تک ہے ہاں اگر اس وقت میں موجود نہ ہو (مثلاً دور کسی جگہ سفر میں ہو) تین دن کے بعد آیا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اور ایک مرتبہ سے زیادہ تعزیت اور تین دن کے بعد ہو تو مکروہ ہے۔ جیسا کہ شامی میں ہے:
و تكره بعدها إلا لغائب و تكره التعزية ثانياٍ و في التاتارخانية لا ينبغي لمن عزى مرة أن يعزي مرة أخرى. (3/ 177)
اور کسی گھر یا بیٹھک وغیرہ میں دریاں یا چار پائیاں بچھا کر بیٹھ جانا تاکہ لوگ تعزیت کے لیے آئیں خلاف اولیٰ ہے اور بعض متاخرین فقہائے کرام نے اس طرح بیٹھ جانے کو مکروہ کہا ہے لہذا اس طریقے سے بھی پرہیز کیا جائے۔
مذکورہ فاتحہ خوانی کا طریقہ بدعت ہے اس سے تعزیت نہیں ہوتی۔ تعزیت کا طریقہ وہ ہے جو اوپر مذکور ہے اور جنازہ پڑھنے کے بعد تعزیت میں لگنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے تدفین میں تاخیر ہوتی ہے۔ یہ خلاف سنت ہے۔ باقی رہی علماء کی بات تو چونکہ وہ مقتداء ہیں لہذا ان کو ایسی بدعات سے خود بھی بچنا چاہیے اور عوام کو بھی بچانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
قوله بالجلوس لها أي للتعزية و استعمال لا بأس هنا على حقيقة لأنه خلاف أولى كما صرح في شرح المنية و في الإمداد قال كثير من متأخري أئمتنا يكره الاجتماع عند صاحب البيت و يكره له الجلوس في بيته حتى يأتي إليه من يعزي بل إذا فرغ رجع الناس من الدفن فليتفرقوا و يشغل الناس بأمورهم و صاحب البيت بأمره في الظهيرية و يكره الجلوس على باب الدار للتعزية لأنه عمل أهل الجاهلية و قد نهي عنه و ما يضع في بلاد العجم من فرش البسط و القيام على قوارع الطريق من أقبح القبائح. (شامى: 3/ 177)
التعزية عند القبر بدعة قلت لعل وجهه أن المطلوب هناك القراءة و الدعاء للميت للتثبيت. (شامى: 3/ 176) فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved