- فتوی نمبر: 5-17
- تاریخ: 17 مئی 2012
- عنوانات: عبادات
استفتاء
آج کل بعض مساجد والوں نے نماز جنازہ کے لیے یہ صورت اختیار کی ہوئی ہے اور بعض حضرات یہ صورت اختیار کرنا چاہ رہے ہیں کہ محراب کی جانب میت رکھنے اور امام کے کھڑے ہونے کی جگہ بنائی جائے۔ جس کی وجہ سے امام اور میت تو مسجد سے باہر ہوں اور باقی نماز مسجد کے اندر ہوں اور اس طرح نماز جنازہ ادا کی جائے۔ بعض جگہ تو جگہ کی تنگی کی وجہ سے ایسا کرنا چاہتے ہیں اور بعض جگہ اگرچہ جگہ کی تنگی تو نہیں لیکن سارے نمازیوں کے مسجد سے باہر کسی میدان وغیرہ میں جمع ہونے میں حرج محسوس کیا جاتا ہے کہ اب تو سب اپنی اپنی جگہ موجود ہیں اور آسانی سے نماز پڑھ لیں گے۔ شرعی نقطہء نظر سے ایسا کرنا کس حد تک درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کی مختلف صورتیں:
۱۔ جنازہ، امام اور مقتدی سب مسجد کے اندر ہوں۔
۲۔ جنازہ اور امام مسجد سے باہر ہوں اور تمام مقتدی مسجد کے اندر ہوں۔
۳۔ جنازہ، امام اور ایک صف مسجد سے باہر ہوں اور باقی مقتدی مسجد کے اندر ہوں۔
۴۔ میت صرف مسجد کے اندر ہو اور امام و مقتدی مسجد سے باہر ہوں۔
حنفیہ کے صحیح قول کے مطابق بلا عذر یہ تمام صورتیں جائز نہیں اور مکروہ ہیں۔ بعض حضرات کےہاں دوسری اور تیسری صورت بلا کراہت جائز ہے۔
(و كرهت تحريماً) و قيل ( تنزيهاً في مسجد جماعة هو ) أي الميت ( فيه ) وحده أو مع القوم . (و اختلف في الخارجة ) عن المسجد و حده أو مع القوم ( و المختار الكراهة ) مطلقاً. خلاصة بناء على أن المسجد إنما بنى للمكتوبة و توابعها كنا فله و ذكر و تدريس علم.
اگر چہ صحیح قول مطلقا کراہت کا ہے لیکن اگر کبھی بلا عذر ایک آدھ دفعہ بغیر عادت بنائے دوسری اور تیسری صورت اختیار کی جائے تو بعض اردو فتاویٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ایسا کرنا صحیح تو نہ تھا لیکن چونکہ اس کے بارے میں عدم کراہت کا قول بھی موجود ہے۔ اس لیے اس پر زیادہ سختی نہ کی جائے ۔
اگر جگہ کی تنگی ہو اور مسجد کے قریب کوئی جگہ نہیں جس میں جنازہ پڑھا جاسکے تو ایسی صورتوں میں دوسری اور تیسری شق اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ جیسا کہ احسن الفتاویٰ میں ہے:
” مسجد میں نماز جنازہ مکروہ تحریمی ہے خواہ جنازہ مسجد کے اندر ہو یا باہر ہو، البتہ اگر نماز کے لیے کوئی دوسری جگہ نہ ہو تو عذر کی جہ سے مسجد میں کراہت نہیں”۔ ( 4/ 193 )
اگر مسجد کے قریب کھلی جگہ موجود ہو جس میں نماز جنازہ ادا کی جاسکے تو ایسی صورت میں مسجد میں جنازہ پڑھنے کی کوئی بھی صورت جائز نہیں۔ جیسا کہ فتاویٰ عثمانی میں ہے:
” جواب: میت کو محراب سے باہر رکھ کر اگر نماز جنازہ مسجد کے اندر پڑھی جائے تو راجح قول کے مطابق یہ صورت بھی مکروہ ہے، البتہ آس پاس نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کوئی اور جگہ نہ ہو تو مجبوراً فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے۔ لیکن چونکہ صورت مسئولہ میں مسجد کے ساتھ مسجد ہی کا کھلا میدان موجود ہے۔ اس لیے جس مسجد کے بارے میں سوال ہے وہاں مسجد کے اندر بلا عذر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔لما في الدر المختار: و اختلف في الخارجة عن المسجد وحده أو مع بعض القوم و المختار الكراهة مطلقاً. و هو الموافق لإطلاق حديث أبي داؤد ” من صلى على ميت في المسجد فلا صلاة له”.و قال الشامي رحمه الله إنما يكره في المسجد بلا عذر فإن كان فلا.بہشتی گوہر ، امداد الفتاویٰ وغیرہ سب میں مسئلہ اسی طرح ہے۔ اور جب مسجد کے ساتھ کھلی جگہ موجود ہے تو مکروہ تحریمی ، مکروہ تنزیہی کی بحث میں نہیں پڑھنا چاہے، باہر ہی نماز پڑھنی چاہیے”۔ (فتاویٰ عثمانی: 1/ 565 )
خلاصہ: جہاں جگہ کی تنگی ہو اور مسجد کے آس پاس جگہ موجود نہ ہو تو عذر کی وجہ سے دوسری اور تیسری صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
اورجہاں مسجد کے ساتھ کھلی جگہ موجود ہو جہاں جنازہ ادا کیا جاسکتا ہو تو وہاں مسجد کے اندر جنازہ کی کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز نہیں۔ بلکہ نماز جنازہ باہر ہی ادا کریں گے۔ فقط واللہ تعالیٰ علم
© Copyright 2024, All Rights Reserved