- فتوی نمبر: 3-203
- تاریخ: 05 جون 2010
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
ہماری ایک دکان ہے جہاں ہم ایک صاحب سے مال خریدتے ہیں اور ان صاحب نے بجائے اسے براہ راست پیسے وصول کرنے کے یہ کہہ رکھا ہے کہ پیسے فلاں آدمی کو دے دیا کرو۔ اسی طرح اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک اور کام یہ کیا ہے کہ انہوں نے اس سے یہ کہا ہے کہ میری طرف سے ہر مہینے اتنی اتنی زکوٰة ادا کر دیا کرو۔
اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ ہماری طرف سے ادا کرنے سے ان کی زکوٰة ادا ہوجائے گی یا کوئی ایسی مزید شرط وغیرہ ہے جسے پورا کرنا لازمی ہو؟
۔۔۔یہاں زکوة کی ادائیگی کے لیے نیت پائے جانے کے حوالے سے کیا حکم ہوگا؟ کیا آمر کی طرف سے اس حکم کو ہی نیت سمجھا جائے گا یا علیحدہ سے نیت کی ضرورت ہوگی؟ اگر خاص طور سے ہماری اس صورت میں جبکہ آمر بالاداء ۔۔۔لاستمرار ہے کسی کی نیت معتبر ہو گی۔ وکیل کی یا مؤکل کی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جی ہاں آپ کے زکوٰة ادا کرنے سے زکوٰة ادا ہو جائیگی اور مامور کا نیت کرنا ضروری نہیں، آمر کی نیت کافی ہے۔
قال في التنوير وشرحه: و لو أمر رجلاً مديونه بالتصدق ما عليه صح. ( 451/ 4 )
و شرط صحة أدائها نية مقارنة له أي للأداء و لو كانت المقارنة …كما لو دفع بلا نية ثم نوى و المال قائم في يد الوكيل لو نوى….عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية أو دفعها الذي ليدفها… قال الشامي تحت قوله” و لذا "أي لكون المعتبر نية الآمر. (28 / 2). فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved