• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

منسلکہ عبارت

استفتاء

3۔ فقہی اصول یہ ہے کہ کسی پر دیون واجب ہوں تو دیون منہا کر کے باقی اموال پر زکوٰة  واجب ہوتی ہے۔ مگر یہ بات آج کل بہت قابل غور ہے کہ اکثر بڑے بڑے سرمایہ داروں  نے بنکوں   اور دیگر مالیاتی اداروں سے اتنے قرض لے رکھے ہوتےہیں کہ قرضے ان کے قابل زکوٰة سرمائے سے عموماً بڑھ جاتےہیں۔ عموماً صورت حال یہ ہوتی ہے کہ اگر ان کے قرضے منہا کیے جائیں تو نہ صرف یہ کہ ان پر زکوٰة واجب نہیں ہوگی، بلکہ بعض صورتوں میں وہ خود مستحق زکوٰة پائیں گے۔ اس سلسلے میں ایک تجویز تو یہ پیس  کی جاتی ہے کہ مشینری پر زکوٰة  واجب قرار دی جائے۔ لیکن یہ بات اس لیے قابل تسلیم نہیں کہ  ہے کہ مشینری کو مال زکوٰة قرار نہیں دیا جاسکتا ، یہ بات منصوص ہے۔ اس  مسئلے  کا صحیح حل یہ ہے کہ زکوٰة سے دیون کا مستثنی ہونا فقہاء کے ہاں  متفق علیہ نہیں۔ حنفیہ اور حنبلیہ کے ہاں تو دیون مستثنے ہوتےہیں ، شافعیہ کےہاں مستثنی نہیں ہوتے۔ اور مالکیہ کےہاں نقود میں تو مستثنی ہوتے ہیں غیر نقود میں نہیں ہوتے۔ احقر کی ناچیز رائے اس مسئلے کے بارے میں  یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ جو قرضہ لیا گیا ہے وہ کہاں صرف کیا گیا۔ اگر ان قرضوں کے ذریعے ایسی اشیاء خریدی گئیں جو خود  قابل زکوٰة ہیں تو یہ  قرضے زکوٰة سے مستثنی ہوں گے۔ اور اگر ان قرضوں سے ایسی اشیاء خریدی گئیں جو قابل زکوٰة نہیں تو یہ قرضے مستثناء نہیں ہوں گے۔ اور اگر ان قرضوں کے سلسلے میں مالکیہ اور شافعیہ کے قول پرعمل کیا جائے گا۔ یہ رائے قائم کرنے کے بعد حافظ مار دینی  رحمہ اللہ کی کتاب ” الجوہر النقی” میں نظر سے گذرا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول بھی اس  کے قریب قریب ہے۔ وہ فرماتےہیں” إن كان عنده عروض، تفي بدينه عليه زكاة العين”.(الجوهر النقی حاشیة بیهقی،4/ 149، باب الدین مع الصدقة )۔  ( اسلام اور جدید معیشت و تجارت ، ص: 96، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ )

قرضہ کے بقدر ایک پلاٹ کے علاوہ مزید کچھ نہیں

ہم تین بھائیوں کا مشترکہ کاروبار تھا جس میں نو لاکھ روپے قرضہ ہوگیا۔ ہم نے آپس کا معاہدے کے تحت قرض کو باہم تقسیم کرلیا، چنانچہ میرے ذمے میں تین لاکھ  روپے آئے۔ یعنی میں اب تین لاکھ روپے کا مقروض ہوں۔ اس کے علاوہ میرے پاس ایک پلاٹ ہے جس کی قیمت  تین لاکھ ہے۔ اس کے سوا میرے پاس مزید کچھ نہیں، ایک رکشہ ہے جس پر میں مزدوری کرتا ہوں۔ نہ میرے پاس کوئی رقم ہے اور نہ سونا وغیرہ ہے۔ سونا بیوی کے پاس تھا وہ بھی بیچ دیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ میرے لیے زکوٰة لینا درست ہے یا نہیں؟ کیونکہ میرے کچھ عزیز چاہتےہیں کہ وہ میر ا قرضہ زکوٰة کے ذریعے ادا کرنے میں کچھ مدد کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ وہ عزیز صرف پندرہ ہزار روپے دینا چاہتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق آپ کے لیے  زکوٰة کی رقم لینا درست ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved