- فتوی نمبر: 3-32
- تاریخ: 21 اکتوبر 2009
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
انسان کو اپنی بہت سی ضروریات دوسروں سے حاصل کرنی پڑتی ہے، مثلاً کسی کے پاس اجناس ہیں، کپڑے نہیں ہیں، اور کسی کو کپڑے میسر ہیں لیکن فرنیچر کی ضرورت ہے، ایسی صورت میں اشیاء کے حصول کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ لوگ گیہوں کے تھیلے لے کر بازار میں جائیں اور اس کے بدلے چند گز کپڑے خرید کر لے آئیں، لیکن اس میں ایک دشواری تو یہ ہے کہ انسان کو اپنی معمولی ضروریات کے لیے بھی اچھا خاصا بوجھ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑے گا، دوسرے کپڑے کے ایسے تاجر کو تلاش کرنا ہوگا، جس کو گیہوں کی ضرورت بھی ہو، چنانچہ قدیم زمانہ میں اشیاء کےتبادلے کا یہی طریقہ مروج تھا، مگر اس کی دشواری کو دیکھتے ہوئے بتدریج مختلف مرحلوں میں سونے اور چاندی کے سکے مروج ہوئے، یہ حمل ونقل کے اعتبار سے بھی آسان تھے اور ان کے ذریعے بازار سے کوئی بھی چیز حاصل کی جاسکتی تھی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت بھی روم میں سونے کے سکے دینار کے نام سے اورا یران میں چاندی کے سکے درہم کے نام سے مروج تھے اور عرب میں یہ دونوں سکے چلا کرتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان ہی سکوں کو برقرار رکھا اور زکوٰة، دیت اور مختلف چیزوں کے لیے ان ہی کو معیار قرار دیا، اسی لیے ان کو فقہاء ” ثمن خلقی " کہتے ہیں، سونے اور چاندی کی قیمتوں میں ایک حد تک استحکام تھا، اس لیے طویل عرصہ تک ان کو کرنسی کی حیثیت حاصل رہی، پھر آہستہ آہستہ ان کی جگہ کاغذی نوٹوں نے لے لی، ان نوٹوں کی قدر میں استحکام نہیں پایا جاتا اور کبھی کبھی اچھال اور زیادہ تر انحطاط پایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر آج سے دس سال پہلے دس ہزار روپے میں دس تولہ سونا خرید کرنے کی صلاحیت تھی تو آج دس ہزار میں ایک تولہ بھی خرید نہیں کیا جاسکتا، ایسی صورت میں مؤخر مطالبات کی ادائیگی کے وقت بعض اوقات روپے کی قدر میں بہت زیادہ فرق واقع ہوجاتا ہے، اکر بعینہ وہی مقدار ادا کی جائے تو صاحب حق کے ساتھ نا انصافی معلوم ہوتی ہے اور اگر موجودہ قدر کے لحاظ سے زیادہ رقم دی جائے تو سود کا شبہ پیدا ہوتا ہے۔
اس مسئلہ کی بنیاد اس پر بھی ہے کہ ان کاغذی نوٹوں اور معدنی سکوں کی حیثیت بجائے خود ثمن کی ہے یا وہ وثیقہ ثمن کا درجہ رکھتا ہے، اور اگر اس کی حیثیت وثیقہ ثمن کی ہے تو اس کی حقیقی قدر متعین کرنے کے لیے پیمانیہ کیا ہوگا؟ سونا چاندی معیاری ہوگا یا ماہرین معاشیات کیطرف سے مقرر کردہ اندازہ پر مبنی اشاریہ؟
اس پس منظر میں دوسرے فقہی سمینار منعقدہ ۸ تا ۱۱ دسمبر ۱۹۸۹ء میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے کچھ سوالات اہل علم کی خدمت میں پیش کیے تھے، چنانچہ کرنسی سے متعلق بعض امور میں سمینار فیصلہ اور نتیجہ تک پہنچا لیکن دو سوالات وہ تھے جن کے بارے میں فیصلہ نہیں ہوسکا اور طے پایا کہ آئندہ ان پر بحث کی جائے ، وہ سوالات حسب ذیل ہیں:
1۔ کاغذی نوٹوں کی اپنی ذاتی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور افراط زر کی صورت میں اس کی قوت خرید تیزی سے گرجاتی ہے، کیا اس صورت حال کی وجہ سے شرعاً یہ صحیح ہوگا کہ دیون یعنی مؤخر مطالبوں مثلاً قرض ، مہر، پنشن، ادھار خریداری کی رقم اور وقت پر ادا نہ ہونے والی تنخواہوں کی ادائے گی کو قیمتوں کے اشاریہ سے وابستہ کر دیا جائے۔ اور کیا ایسے معیار مقرر کرنا جن کی بنیاد دقیق فنی اصولوں پر ہو، باہمی مستقل تنازعہ کا موجب ہوگا۔ نیز یہ کہ اس طرح سوروپے کے بدلے پانچ سو روپے کی ادائیگی باب ربا کو کھولنے کا ذریعہ بنے گا؟
2۔ کیا یہ جائز ہوگا کہ نوٹوں کی شکل میں قرض دیتے وقت یا مہر کے تقرر کے وقت یا ادھار فروختگی کے وقت طرفین واجب الادا نوٹ کی مالیت سونے یا چاندی میں طے کرلیں اور بوقت ادائیگی اسی قدر سونے یا چاندی کی قیمت کے مساوی نوٹوں کی ادائیگی عمل میں آئے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کاغذی نوٹ فلوس کی طرح ثمن عرفی بن گئے ہیں۔
لہذا 1 ۔ 2 میں مذکورہ دونوں صورتیں ( کہ اشاریہ کے ذریعے واجب الاداء رقم کی تعیین کی جائے یا واجب الاداء نوٹ کی مالیت سونے چاندی میں مقرر کریں اور بوقت ادائیگی اس قدر سونے یا چاندی کی قیمت کے مساوی نوٹوں کی ادائیگی عمل میں آئے ) سود کی ہیں کیونکہ ایک ہی جنس میں ایک جانب کم ہے اور دوسری جانب زائد۔
پہلی بات یعنی اشاریہ سے ہمیں اتفاق نہیں، دوسری سے ہمیں اتفاق ہے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ فریقین نے روپے کی مالیت سونے چاندی میں طے نہ بھی کی ہو تب بھی وہ روپے کے لیے قدرتی معیار ہیں۔
لہذا صحیح صورت یہی ہے کہ روپے ادھار دیتے وقت ان روپوں کی جس قدر چاندی آتی تھی بوقت ادائیگی اتنی مقدار کی چاندی ادا کی جائے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے سونے چاندی کی تخلیق کرنسی کے طور پر کی ہے۔ لہذا وہ عرفی ثمن کے لیے قدرتی معیار کے طور پر ہیں۔ اس لیے اگرچہ قرض اور دین کے وقت فریقین نے سونے چاندی کو معیار نہ بھی کیا ہو پھر بھی وہ معیار رہیں گے کیونکہ شریعت نے ان کو ایسے ہی پیدا کیا ہے۔ پھر سونے اور چاندی میں کس کو لیا جائے تو ان دو میں سے اس کو معیار بنایا جائے جس میں تفاوت کم آیا ہو اوریہ بات چاندی میں عام طور سے پائی جاتی ہے۔ لہذا چاندی کو معیار بنا کر چاندی میں ادائیگی کی جائے۔
أما إذا غلت قيمتها أو انتقصت فالبيع على حاله … وقال الثاني ثانية عليه قيمتها من الدراهم يوم البيع والقبض وعليه الفتوى وهكذا في اذخيرة والخلاصة عن المنتقى ونقله في البحر وأقره حيث صرح بأن الفتوى عليه في كثير من المعتبرات فيجب أن يعول عليه إفتاء وقضاء ولم أر من جعل الفتوى على قول الإمام.
و لو كان يروج لكن انتقص قيمته … و فتوى الإمام قاضي ظهير الدين على أنه يطالب بالدراهم التي يوم البيع يعني بذلك العيار ولا يرجع عليه بالتفاوت.(رسائل ابن عابدین61/ 2 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved