• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

صدقہ اور زکوٰہ کی رقم مسجد و مدرسہ کی تعمیر میں لگانا

استفتاء

مسئلہ یہ ہے کہ صدقہ کے پیسے مسجد میں لگ سکتے ہیں یا صدقہ کے پیسے مدرسہ میں لگ سکتے ہیں ؟ اور زکوٰة کے پیسے مسجد میں لگ سکتے ہیں  ؟ یا زکوٰة کے پیسے مدرسہ میں لگ سکتے ؟ کیوں نہیں لگتے یا لگتے ہیں اس کی وجہ تفصیل سے بتائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر پیسے محض نفلی صدقے کے ہیں تو وہ مدرسہ اور مسجد دونوں کی تعمیر میں لگ سکتے ہیں اور اگر واجب صدقات میں سے ہوں جن میں زکوٰة ، صدقہ فطر اور چرم قربانی بھی شامل ہیں تو وہ مدرسہ اور مسجد کی تعمیر میں نہیں لگ سکتے اس لیے کہ ان میں تملیک ( یعنی کسی مستحق زکوٰة آدمی کو مالک بنانے ) کی شرط ہے اور انمیں یہ شرط نہیں ہوتی۔ البتہ جو تعلیمی ادارے ہیں ان کو زکوٰة دی جاسکتی ہےکہ وہ زکوٰة کو مستحق پر تملیک کے بعد خرچ کریں۔

قال في التنوير: هي تمليك جزء مال عينه الشارع من مسلم فقير. ( 3/ 206 )

و في الشرح: لا يصرف إلى بناء نحو مسجد و في الشامية: كبناء القناطر و السقايات و إصلاح الطرقات و كري الأنهار  والحج و الجهاد و كل ما لا تمليك فيه. فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved