• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جادو کی حقیقت اور حکم

استفتاء

1۔ جادو کی حقیقت کیا ہے؟ جادو ہوتا بھی ہے یا نہیں؟

2۔ جادو کرانے اور کرنے ، دونوں کے بارے میں شریعت میں کیا حکم ہے؟ سزا کیا ہے اور سزا پر عمل درآمد کا کیا طریقہ کار ہے؟ ( ملک میں اسلامی قانون نہ ہو تو شرعی مجرم سزا سے بچا رہے گا )۔

3۔ جادو کے ذریعہ جائز یا ناجائز کام کرانا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ قرآن و سنت کی اصطلاح میں جادو اور سحر ایسے عجیب  وغریب کام کو کہا جاتا ہے جس میں شیاطین کو خوش کر کے ان سے مدد حاصل کی گئی ہو۔

جادو کا وجود وحقیقت  اور تاثیر قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد خداوندی ہے:

” و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر”

ترجمہ: مگر شیاطین  کفر کیا کرتے تھے اور حالت یہ تھی کہ آدمیں کو بھی سحر کی تعلیم کیا کرت تھے۔

اور حدیث شریف میں ہے:

عن عائشة رضي الله عنها قالت كان رسول الله ﷺ سحر حتى كان يرى أنه يأتي النساء  و لا يأتيهن، قال سفيان و هذا أشد ما يكون من السحر. ( عمدة القاری، 21/ 283 )

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ پر جادو کر دیا گیا ( اس کا اثر یہ ہوا کہ ) آپ اپنی کسی بیوی سے ہمبستری کا ارادہ فرماتے  لیکن نہ کر پاتے۔ سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ جادو کی سب سے سخت قسم ہے۔

2۔3۔ جادو میں اگر کفریہ کلمات شامل ہوں تو یہ کفر ہے، خواہ اس سے کسی کو نفع پہنچائے یا نقصان۔ اور اگر کلمات جائز ہوں لیکن ناجائز کام کے لیے ان کا استعمال ہو تب بھی یہ سخت گناہ ۔اور اس کی سزا اسلام میں قتل ہے لیکن اس سزا کو نافذ کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر کلمات جائز ہوں اور ان کا استعمال بھی جائزکام میں ہوتو یہ جائز ہے۔

4۔ اس  کا جواب نمبر 2 کے ضمن میں گذر چکا ہے۔

حوالجات ملاحظہ ہوں:

1۔يقتل حداً لاضراره بالناس كقطع الطريق و إن لم يعتقد ما يوجب كفره. فلو  اقترن به ما يوجب كفره كاعتقاد التأثير بنفسه أو تأثير الكواكب أو الشياطين فإنه يكون كافراً فيقتل لاضراره و كفره. ( رسائل ابن عابدین، 2/ 302 )

2۔ فالذي يقيمه ( الحد ) الإمام أو من والاه الإمام الإقامة. (بدائع، 6/ 54 )

3۔ و رابعها ما لا يكون فيه كفر و لا ضرر و لا معصية ولا يفضي إلى معصية  و لا يترتب عليه مفسدة ولا انهماك فهو في نفسه مباح لا بأس به ما لم يقصد به التلهي و التلعب. ( احکام القرآن، ظفر احمد صاحب، 1/ 51 ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved