• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جھوٹےمقدمے کی پیروی کرنا

استفتاء

کیا فرماتےہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ خاوند نے شادی کے موقع پر بیوی کو زیور دیا اور کہا کہ یہ زیور آپ کا ہے آپ کی ملکیت اب ہم نے آپ سے واپس نہیں لینا اس کی زکوٰة بھی آپ ہی  نےدینی ہے۔ اب چھ سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ بیوی زکوٰة ادا کرتی ہے۔ اور صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے ہر سال قربانی بھی دیتی ہے۔ لیکن شروع دن سے خاوند کا رویہ اپنی بیوی کےساتھ ٹھیک نہ تھا اور چار سال کے عرصہ میں بیوی کو خاوند کی طرف سےخرچہ بھی نہیں دیا گیا اور نہ ہی رہائش دی اور بیوی اپنے ماں باپ کے یہاں  رہی۔ صرف چند دن کے لیے کبھی لے گیا جب کہ بیوی کے ماں باپ نے کبھی بھی اپنی بیٹی کو رخصت کرنے سے انکار نہیں کیا اور بار ہا دفعہ خاوند نے  بیوی سے اور اپنے گھر والوں سے یہ کہا مجھے اپنی بیوی سے نفرت ہے، بیوی کےبار بار سمجھانے کے باوجود خاوند کا روریہ  سخت سے سخت ہوتا گیا۔ تو ان  حالات میں بیوی نے فیصلہ کیا کہ میں ان حالات میں خاوند کے شرعی حقوق جو اللہ  اور اللہ کے رسول کی طرف سے میرے  ذمہ ہیں ادا نہیں کر سکتی، طلاق کا مطالبہ کیا۔ تاکہ نہ میں اللہ کی مجرم بنوں اور نہ ہی اپنے خاوند کی ۔ لیکن خاوند نے طلاق دینے سے انکار کیا اور کہا کہ میں نے کسی قیمت پر طلاق نہیں دینی۔ انہی حالات میں فجر کی نماز کے وقت ڈاکہ ڈال کر ہمارے گھر سے اپنے بیٹے محمد کو  جس کی عمر اس وقت تین سال تھی اغوا کر کے لے گئے۔ جن میں پانچ مسلح افراد تھے، بچہ کو بچہ کے چچا نے اندر سے اٹھایا اور لےگئے جب کہ میں بچی کا والد مسجد میں نماز فجر پڑھ رہا تھا اور مزید ہماری بیٹی  کو اغوا کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے جب کہ بد قسمیت سے آٹھ ماہ کے طویل عرصہ میں مصالح کمیٹی یعنی پنچائت  کوئی  فیصلہ کرسی۔ اب ہمارے یے قانونی تحفظ اور جان چھڑانے کے لیے عدالت کے سوا کوئی چار ا کار نہ تھا ۔ تو ان حالات میں بیوی نے عدالت کا دروازہ کھٹکاٹایا اور تنسیخ نکاح کا دعویٰ کردیا اس دوران بھی ہم نے کوشش کی کسی طریقہ سے شریعت کے مطابق فیصلہ ہو جائے لیکن تمام کوششیں ضد اور ہٹ دھرمی کی نظر ہوگئیں۔ بالآخر عدالت نے تنسیخ نکاح کا فیصلہ سنا دیا۔ اب ان کا مطالبہ ہے کہ ہما را زیور واپس کرو۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ زیور  کا بیوی کو مالک بنایا گیا ہے اور ہبہ کیا گیا۔ ہبہ واپس نہیں ہوتا ان کا موقف ہے کہ جب بیوی نہ رہی تو زیور بھی واپس کرنا پڑے گا۔ شریعت کا موقف کیا وہ بتادیں ؟اسی زیور کے حصول کے لیے ان لوگوں  نے ہمارے خلاف میری بیٹی کے خلاف تیرہ تولہ زیور کا جھوٹا مقدمہ  اور پچاسی ہزار  اکیڑے پہنائے۔ اور بیٹی کے والد کے خلاف پانچ لاکھ کا چھوٹا مقدمہ عدالت کے اندر ہے اس کے علاوہ  فائرنگ اور ارادہ قتل کا مقدمہ اور پرچہ دائر کیا گیا ہے۔ کیا یہ ظلم اندر ظلم نہیں؟ دین اسلام جھوٹے مقدمے کے بارے میں کیا کہتا ہے اور ایسے لوگوں کے ساتھ دینے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟ کیا صرف اتنی بات پوچھنا چاہتے ہیں کہ دین اسلام جھوٹے مقدمے کے بارے میں کیا کہتا ہے اور اس کا ساتھ دینے والے کا کیا حکم  بتاتا ہے؟ اگر صرف یہی پوچھنا  چاہتے ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ جھوٹامقدمہ لگانا اور اس پر معاونت کرنا حرام ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved